تحریر :سنگت آوارانی
زرمبش اردو

جب تاریخ کے آئینے پر جھوٹ کی گرد جم جائے اور سچائی کی روشنی دھندلا جائے، تو اقوام کی بقا نہ صرف ایک سوال بن جاتی ہے بلکہ ان کی روح پر مسلسل تازیانہ بن کر برستی ہے۔
بلوچستان، جسے قدرت نے سنگلاخ پہاڑوں اور بے پناہ معدنی وسائل سے نوازا ہے، آج ایک بار پھر اسی اندوہناک حقیقت کا شکار ہے۔ وہ قوتیں جو دہائیوں سے بلوچ وطن کے امن و سکون کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں، اب مظلوموں پر الزام تراشیوں کی نئی بساط بچھا چکی ہیں۔ کٹھ پتلی حکومت بلوچستان اور پیپلز پارٹی کے نمائندگان کا حالیہ بیانیہ، جس میں ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کو دہشت گرد اور سردار اختر مینگل کو بلوچ مسلح قوتوں کا سہولت کار قرار دیا گیا، محض ایک سیاسی حربہ نہیں بلکہ بلوچ قوم کے اجتماعی شعور کی توہین ہے۔
جھوٹ، چاہے کتنی ہی چالاکی سے بولا جائے، اپنی بنیاد میں ناپائیدار ہوتا ہے۔ جب کوئی سیاسی بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہو، تو اس کے الفاظ خود اپنی صداقت سے خالی ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے گزشتہ سات دہائیوں سے بلوچ قومی شناخت کو مسخ کیا، بلوچ وطن میں جبر، دہشت گردی اور ناانصافیوں کا المناک تسلسل جاری رکھا، اور قومی وسائل کو بے دردی سے لوٹا، آج وہی افراد اپنے بے گناہی کی صفائی دے رہے ہیں جیسے ان کے ماضی کے گناہوں کو تاریخ نے معاف کر دیا ہو۔ مگر تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ وہ ان لمحوں کو محفوظ رکھتی ہے جب بلوچوں کا خون زمین پر بہایا گیا، جب سچ بولنے والوں کو غدار اور حق مانگنے والوں کو دشمن قرار دیا گیا۔
بلوچستان کی سرزمین نے بارہا ایسے فریب دیکھے ہیں، جب ریاستی بیانیہ جھوٹ کے سہارے عوام کے سچ کو کچلنے کی کوشش کرتا رہا۔ مگر سچ وہ دھوپ ہے جس پر کسی پردے کا سایہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، جنہوں نے مظلوموں کی آواز بن کر ضمیر کا کردار ادا کیا، اُنہیں دہشت گرد کہنا اس نفسیاتی شکست کا اعتراف ہے جو ظالم سچ کے سامنے کھا بیٹھتا ہے۔ سردار اختر مینگل، جنہوں نے پرامن سیاسی جدوجہد کو ترجیح دی، اُن پر الزامات لگانا دراصل اس سوچ پر حملہ ہے جو جمہوریت پر یقین رکھتی ہے۔
یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ نوآبادیاتی ذہنیت کے حامل وہی عناصر، جو ماضی میں بلوچ سیاسی قوتوں کو غدار اور ایجنٹ کہہ کر بدنام کرتے رہے، آج بھی اسی پالیسی پر کاربند ہیں۔ مگر سوال یہ ہے: کب تک؟ کب تک یہ لوگ مظلوموں کے لہو سے اپنی سیاست کو سینچتے رہیں گے؟ کب تک طاقت کے نشے میں مست ہو کر اپنے گناہوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالتے رہیں گے؟ اور کب تک عوام ان کے جھوٹ پر خاموش رہیں گے؟
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کی عمر ہمیشہ مختصر ہوتی ہے۔ نہرو اور گاندھی کی سچائی ہندوستان میں فتح مند ہوئی، جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی استقامت نے نسل پرستی کو شکست دی، اور عرب بہار میں عوامی بیداری نے آمریت کی بنیادیں ہلا دیں۔ بلوچستان کا المیہ بھی اسی تسلسل کا حصہ ہے، جہاں استحصالی نظام لرز رہا ہے۔ اس لرزش کی بنیاد عوامی شعور ہے، وہی شعور جو جھوٹے بیانیے کے پیچھے چھپے زہر کو پہچان رہا ہے۔
ہمیں بطور قوم اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی اور سچ کا ساتھ دینا ہوگا، چاہے وہ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو۔ جو لوگ مہرنگ بلوچ اور اختر مینگل جیسے کرداروں پر انگلی اٹھاتے ہیں، وہ درحقیقت ان آوازوں کو دبانا چاہتے ہیں جو ریاستی جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ان کی اصل جنگ بلوچ قومی شعور سے ہے، جو بیدار ہو رہا ہے، اور ہر فریب کو چیر کر حقیقت کو بے نقاب کر رہا ہے۔
یہ تحریر محض الفاظ نہیں، بلکہ ایک دردناک حقیقت کی عکاسی ہے۔ جب ایسے بیانات ریاستی پشت پناہی سے سامنے آتے ہیں، تو یہ اس بات کا اعلان ہوتے ہیں کہ طاقتور حلقے خوفزدہ ہیں — اس سچ سے جو دیواروں پر لکھا جا چکا ہے، اس بیداری سے جو نوجوان نسل کی آنکھوں میں جھلک رہی ہے، اور اس تبدیلی سے جو اب ناگزیر ہو چکی ہے۔
سچ ایک دریا ہے جسے بند نہیں کیا جا سکتا۔ یہ چٹانوں کو کاٹتا ہے، رکاوٹوں کو بہا لے جاتا ہے، اور آخرکار اپنی راہ خود بنا لیتا ہے۔ بلوچستان کے باسیوں کو چاہیے کہ وہ ماضی کے فریبوں سے سبق سیکھیں اور ان چہروں کو پہچانیں جو ہر نئے فتنہ میں پرانے سازشی کردار کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ اگر آج ہم نے سچ کا ساتھ نہ دیا، تو کل یہ جھوٹ ہمیں بھی نگل جائے گا۔
سچائی کی راہ دشوار ضرور ہے، لیکن یہی وہ واحد راستہ ہے جو ایک باوقار، پائیدار اور پرامن معاشرے کی طرف لے جاتا ہے۔ مہرنگ بلوچ جیسے کردار ہماری قومی روح کی روشنی ہیں، اور اختر مینگل جیسے رہنما ہماری سیاسی بقا کے ستون۔ ان کے خلاف جھوٹے الزامات کو برداشت کرنا صرف ان کے خلاف نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی قومی یکجہتی کے خلاف جرم ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ ہم منافقانہ رویوں کو مسترد کریں، فریب زدہ بیانیے سے منہ موڑیں، اور سچ، شرافت اور قومی خودمختاری کی جدوجہد کے ساتھ کھڑے ہوں۔ کیونکہ جیت ہمیشہ عوام کی ہوتی ہے، اور تاریخ نے بارہا ثابت کیا ہے کہ جو قومیں سچ کا ساتھ دیتی ہیں، وہی اقوام آخرکار جیتتی ہیں۔
اگر ہم میں سے کوئی ظلم کے ساتھ کھڑا نہیں، تو ظلم کی موجودگی میں خاموش رہنا بھی گناہ ہے۔ بلوچ قوم انصاف، امن، وقار اور باعزت زندگی کی طلبگار ہے۔ وہ اپنی قومی شناخت پر کسی قسم کا سمجھوتہ قبول نہیں کرتی اور ہر اس کوشش کو رد کرتی ہے جو ان کی ثقافت، زبان اور تشخص کو مٹانے کی کوشش کرے۔ بلوچ عوام برابری اور آزادی کے اصولوں پر یقین رکھتے ہیں، اور انسانی حقوق کی پامالی پر کبھی خاموش نہیں رہتے۔
جو لوگ بلوچ قوم کے حق پر مبنی مطالبات پر خاموش ہیں، وہ یاد رکھیں کہ تاریخ کبھی خاموش تماشائیوں کو معاف نہیں کرتی۔ سچ وقتی طور پر چھپایا جا سکتا ہے، مگر وہ مٹایا نہیں جا سکتا۔ وہ لمحہ بھر دھوکہ دے سکتا ہے، لیکن آخرکار وہی سچ انسانوں اور قوموں کا مقدر بنتا ہے۔ آج جو لوگ ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں یا خاموشی و غیر جانبداری کا انتخاب کر رہے ہیں، کل تاریخ کے کٹہرے میں ضرور پیش ہوں گے۔