خصوصی رپورٹ : بلوچستان میں ڈھونگ انتخابات کی تیاریاں ، پاکستانی فوج کے ٹینک اور توپوں کے ساتھ نقل و حرکت میں اضافہ

لیکن یہ تیزی انتخابی گہماگہمی میں نہیں

بلوچستان میں ڈھونگ انتخابات کی تیاریوں میں بلوچستان بھر میں تیزی نظر آ رہی ہے لیکن یہ تیزی انتخابی گہماگہمی میں نہیں بلکہ پاکستانی فوج کی نقل و حرکت اور انتظامیہ کی طرف سے پھرتیوں میں دکھائی دے رہی ہے۔ایران اور پاکستان کے بلوچستان میں دو طرفہ جان لیوا فضائی حملوں اور دونوں ممالک کے درمیان بیان بازی کے حد تک تعلقات میں کشیدگی کے بعد مکران کے تینوں اضلاع گوادر ، کیچ اور پنجگور میں پاکستانی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ۔جنگی جہاز ، ڈرون ، ٹینک اور توپوں سمیت بھاری ہتھیاروں کی منتقلی دیکھنے میں آئی۔

زیرنظر رپورٹ میں درج ذیل موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے:

  • خوف کی فضاء میں ڈھونگ انتخابات
  • صورتحال پر قابو پانے کے لیے ریاستی حکمت عملی
  • ایم آئی اور آئی ایس آئی کی سرگرمیوں کا محور
  • اگلا کٹھ پتلی وزیر اعلی کون سلیکٹ ہوگا ؟
پاکستانی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ ہوا ۔جنگی جہاز ، ڈرون ، ٹینک اور توپوں سمیت بھاری ہتھیاروں کی منتقلی دیکھنے میں آئی۔

مشرقی بلوچستان میں ایران کے فضائی حملوں کے بعد پاکستان کی فضائی ،بحری اور زمینی افواج نے غیر معمولی پھرتی دکھائی اور فضا میں جنگی ماحول نظر آیا لیکن ایران کے ساتھ غیررسمی تجارت جس میں ایرانی تیل کی ترسیل کا عمل بھی شامل ہے ، رسمی تجارتی اور سفری راہداریاں معمول کے مطابق کھلی رہئیں اور ان سرگرمیوں میں کسی قسم کی مداخلت نظر نہیں آئی۔

18 جنوری کی صبح بلوچستان کی تاریخ میں ایک خون آشام دن کا اضافہ تھا جس میں پاکستانی فوج نے مغربی بلوچستان میں سراوان کے گاؤں ، شمسر پر میزائل اور ڈرون حملوں کے ذریعے بلوچ مہاجرین کے گھروں کو نشانہ بنایا جس میں سیاسی رہنماء ، بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی کونسلر ’چیئرمین دوستا کے پورے خاندان ‘ سمیت دس بلوچ مہاجرین شہید ہوئے یہ وہ افراد تھے جو مشرقی بلوچستان سے پاکستانی فوج کے مظالم سے تنگ آکر مغربی بلوچستان ہجرت کر گئے تھے۔ ایران نے پاکستان کے اس حملے پر کمزور ردعمل دیا حالانکہ ان حملوں میں سراوان جیسے بڑے شہر کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔

خوف کی فضاء میں ڈھونگ انتخابات

اگلے مہینے 8 فروری کو پاکستانی ڈھونگ انتخابات کی تاریخ طے کی گئی ہے لیکن بلوچستان میں قابل ذکر انتخابی سرگرمیاں نظر نہیں آرہیں۔گوکہ اس مرتبہ ابھی تک پاکستانی انتخابات کے خلاف بلوچستان میں آزادی پسند تنظیموں کی طرف سے ’تیز انتخابات مخالف ‘ مہم کا بھی آغاز نہیں کیا گیا ہے لیکن انتخابی دفاتر، انتخابی امیدواروں اور انتخابی سرگرمیوں پر حملوں کا آغاز ہوچکا ہے۔

بلوچستان لبریشن فرنت کی سالانہ رپورٹ کے پیش لفظ میں پاکستانی انتخابات کے انعقاد پر غیر یقینی کا اظہار کرتے ہوئے عوام سے ان انتخاباتی عمل سے دور رہنے کی اپیل کی گئی ، بی ایل ایف کے ترجمان میجر گھرام نے اپنے بیان میں کہا ’’ پاکستان میں ڈھونگ انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں، بے یقینی کی صورتحال موجود ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو تاحال یقین نہیں آ رہا کہ پاکستانی فوج لنگڑی لولی اور کنٹرولڈ ڈیمو کریسی کو بھی چلنے دے گی یا نہیں۔ بہرحال ایک اعلان سامنے آیا ہے کہ رواں سال پاکستان میں عام انتخابات کا سال ہوگا اور شاید فروری میں انتخابات ہوں گے۔ بلوچ قوم نے گزشتہ انتخابات میں بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی کال پر انتخابات کا بائیکاٹ کرکے آزادی کے مطالبے کے حق میں فیصلہ دیا۔ اب بھی یہ ضروری ہے کہ بلوچ قوم پاکستان کی پارلیمانی سیاسی جماعتوں اور انتخابی سرگرمیوں سے دوری اختیار کرئے۔ ان سرگرمیوں میں بلوچ قوم کی شمولیت سے بلوچ قومی تحریک کو نقصان پہنچے گا۔ دشمن کو دنیا کو دکھانے کے لیے یہ جواز ملے گا کہ بلوچ پاکستان کی پارلیمنٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہمیں ہر اس سازش کو سمجھنا ہوگا جو ہماری قومی بقا کے لیے خطرہ ہو۔ بی ایل ایف بلوچ قوم سے توقع رکھتی ہے کہ وہ ماضی کی طرح پاکستان کے آنے والے ڈھونگ انتخابات میں بھی شرکت نہیں کریں گے۔‘‘

بلوچستان لبریشن فرنٹ کی طرف سے انتخابات کے خلاف ناصر آباد ، بلیدہ ، پنجگور ، تمپ اور ھوشاپ سمیت مکران کے مختلف علاقوں میں وال چاکنگ بھی کی گئی ہے۔

انتخاباتی دفاتر پر حملے کیے گئے ہیں جن میں خاران میں الیکن کمیشن کے پرانے دفتر پر بم حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان آزاد نے قبول کی۔انتخابی سرگرمیوں میں متحرک نیشنل پارٹی کے رہنماء اکرم دشتی اور لالا رشید کےقافلے پر بھی حملہ کیا گیا۔ایک حالیہ حملے میں جمعرات کے روز ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں الیکشن کمیشن کے ریجنل آفس پر حملہ کیا گیا جس میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت ہوئی۔یہ حملہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا تھا کہ تربت شہر میں انتخابات کے حوالے سے اعلی سطحی میٹنگز ہو رہے تھے۔

صورتحال پر قابو پانے کے لیے ریاستی حکمت عملی

بلوچستان میں کم از کم تین انتخابی امیدواروں پر حملوں کے بعد پاکستان فورسز اور اسٹبلشمنٹ کی طرف سے آٹھ فروری کو متوقع ریاستی ڈھونگ انتخابات کا پرامن انعقاد ایک چیلنج بن چکا ہے۔ اکرم دشتی اور لالا رشید پر حملوں کے بعد مکران میں انتخابی امیدواروں اور انتظامیہ میں واضح بے چینی نظر آ رہی ہے۔ بھاری تعداد اور بڑے ہتھیاروں کے ساتھ فوجی نقل و حمل سے ’ فوج کشی ‘ کے خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔

انتخابی سرگرمیوں میں متحرک نیشنل پارٹی کے رہنماء اکرم دشتی اور لالا رشید کےقافلے پر بھی حملہ کیا گیا۔
انتخابی سرگرمیوں میں متحرک نیشنل پارٹی کے رہنماء اکرم دشتی اور لالا رشید کےقافلے پر بھی حملہ کیا گیا۔

ہمارے ذرائع نے بتایا ہے کہ منگل اور بدھ کے درمیان تربت میں 78 گاڑیوں پر مشتمل فوجی قافلہ پہنچا ہے۔ ان جنگی ساز و سامان میں ٹینکس ، کمبیٹ ویکلز ،ٹرانسپورٹ ویکلز، سپورٹنگ ویکلز، آرٹلری اور ائر کرافٹس دیکھے گئے ہیں۔

جمعرات کے روز مکران بھر میں انتخابی عمل کے انعقاد کا جائزہ لینے کے لیے بلوچستان کے کٹھ پتلی نگران وزیر اعلی علی مردان ڈومکی نے تربت میں ایک اجلاس کی صدارت کی جس میں مکران ڈویژن کے تینوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کے علاوہ دیگر انتظامی اہلکار موجود تھے۔

ایم آئی اور آئی ایس آئی کی سرگرمیوں کا محور

ویسے تو پاکستان بھر میں انتخابات کا عمل غیرشفاف اور نمائشی ہی ہوتا ہے لیکن بلوچستان میں پاکستانی فوج کی خاص دلچسپیوں کی وجہ سے ایم آئی اور آئی ایس آئی کے اہلکار اپنی مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ مکران کے ضلع گوادر میں بااثر کاروباری افراد کا ووٹ بینک فیصلہ کن سمجھا جاتا ہے جنھیں ایم آئی اور آئی ایس آئی کی مسلسل بلیک میلنگ کا سامنا ہے۔

ذرائع نے ریڈیو زرمبش کو بتایا کہ بی این پی مینگل کے امیدوار ھمل کلمتی کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے کے لیے ’کلمتی قبیلے‘ کے بااثر افراد کو جان کی دھمکیاں دی گئٛی ہیں یہاں تک کے بارودی دھماکوں میں نشانہ بنا کر انھیں بی این پی مینگل سے علیحدگی کا کہا گیا۔

ھمل کلمتی کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے کے لیے ’کلمتی قبیلے‘ کے بااثر افراد کو جان کی دھمکیاں دی گئی ہیں

ایک ایسے شخص کے قریبی عزیز نے اپنا نام نہ بتانے کے شرط ہمارے نمائندہ خصوصی کا بتایا کہ بی این پی کے سربراہ اختر مینگل اس ساری صورتحال سے باخبر کرکے انھیں اس پر سخت موقف اپنانے کو کہا گیا لیکن انھوں نے اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وہ اس معاملے پر بے بس ہیں۔ہ ان کے اپنے اوپر حملے کیے جا رہے ہیں اس میں وہ اپنے حمایتوں کا تحفظ کرنے سے قاصر ہیں۔

اگلا کٹھ پتلی وزیر اعلی کون سلیکٹ ہوگا ؟

تربت اور گوادر میں دو الگ الگ ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی ایجنسیوں میں ایک مرتبہ پھر نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرمالک کو کٹھ پتلی وزارت اعلی کے منصب پر بٹھانے کی سوچ نظر آتی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگلا کٹھ وزیر اعلی ڈاکٹر مالک ہوگا جو ایک مخلوط حکومت کی سربراہی کرئے گا۔ محمود خان اچکزھی کو بھی نوازنے کا امکان ہے تاکہ جدید پشتون نیشنل ازم کے ابھار اور بلوچ پشتون اتحاد کو کاؤنٹر کیا جاسکے۔ کٹھ پتلی بلوچستان حکومت میں پیپلز پارٹی ، پشتونخوا میپ اور جمیعت علمائے اسلام موجود ہوں گے جبکہ اخترمینگل کی جماعت کمزور ترین پوزیشن میں ہوگی۔

پاکستانی ایجنسیوں میں ایک مرتبہ پھر نیشنل پارٹی کے ڈاکٹرمالک کو کٹھ پتلی وزارت اعلی کے منصب پر بٹھانے کی سوچ نظر آتی ہے۔

پیپلز پارٹی کو بلوچستان میں سلیکشن میں فیورٹ رکھا گیا ہے۔بلوچستان کے چھوٹے بڑے منشیات فروشوں کو کہا گیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کا حصہ بنیں جبکہ باپ اور ڈیتھ اسکواڈز کے سرغنہ بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوچکے ہیں۔ وہاں اسلام آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ’ لیول پلیئنگ فیلڈ ‘ کے مطالبے پر اپنا انتخابی مہم چلا رہا ہے مگر بلوچستان میں واضح نظر آتا ہے کہ اسٹبلشمنٹ نے بلوچستان میں کئی سیلکٹڈ ایم این ایز اور ایم پی ایز اس کی جھولی میں ڈال دیے ہیں۔

مسلم لیگ نون اپنے روایتی سیاسی مزاج کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ کے ساتھ خفیہ معاہدے کی بنیاد پر اسٹبلشمنٹ کے بلوچ کے ساتھ ’ گڈ کوپ۔ بیڈ کوپ ‘ تکنیک کے مطابق ’گڈ کوپ ‘ بن کر بلوچستان کے معاملے میں لاتعلق ہوکر اگلی باری کے لیے مطمئن پوزیشن میں نظر آ رہی ہے جبکہ بیڈ کوپ کے کردار میں پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان میں تاریخ کے بدنام ترین کرداروں کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی قریبی اتحادی بن چکی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی بلوچستان میں تاریخ کے بدنام ترین کرداروں کے ساتھ اسٹبلشمنٹ کی قریبی اتحادی بن چکی ہے۔

کنٹرولڈ انتخابی عمل میں رونق پیدا کرنے کے لیے پاکستانی فوج بڑی ہوشیاری سے کھیل رہی ہے اور واضح نہیں کہ وہ آئندہ کس نوعیت کی حکومت بنائے گی۔ لیکن غیریقینی صورتحال نے انتخابی عمل میں سیاسی جماعتوں کی دلچسپیاں نمایاں طور پر کم کی ہیں۔

قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں سیاسی بحران میں اضافہ ہوگا۔ سیاسی جماعتیں پاکستانی پارلیمنٹ میں مزید غیرموثر ہوں گی اور فوج کے سلیکٹڈ سیاستدان ریاست کے اہم عہدوں پر براجمان ہوں گے۔ اس پس منظر میں پاکستان کے معتبر صحافی حامدمیر سوال پوچھتے نظر آتے ہیں کہ کیا 8 فروری کے انتخابات کے بعد کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار سیاسی جماعتوں سے زیادہ طاقتور بن کر سامنے آئیں گے؟

ٹویٹر پر عوامی رائے جاننے کے لیے ایک غیرمعروف ٹویٹر اکاؤنٹ سے اس سوال پر عوامی رائے بھی معلوم کرنے کی کوشش کی گئی جس میں 76 فیصد رائے دہندگان نے امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستانی انتخابات کے بعد ’ آزاد امیدوار ‘ طاقتور ہوں گے ، یعنی اگلی حکومت سازی میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا پلڑا بھاری رہے گا۔ واضح رہے کہ ٹویٹر پر اب تک اس پول میں محض 75 ووٹس ڈالے گئے ہیں۔

انتخابی صورتحال کیا ہوگی؟

بلوچستان میں انتخابات میں عوامی دلچپسی ہمیشہ سے کم رہی ہے اور اس بار کی جو صورتحال ہے اس میں واضح ہے بلوچستان میں ’ بلوچ پشتون نسل کشی کے خلاف منظم تحریک‘ کو دونوں اقوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پی ٹی ایم اور بی وائی سی بلوچستان میں انسانی حقوق کی عوامی تحریک کی نمائندہ تنظیم ہیں جو بلوچ ۔ پشتون عوام کے بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کرتی ہیں۔چمن بارڈر میں تجارتی سرگرمیوں کے لیے ویزا کی شرط کے خلاف ہزاروں افراد کا دھرنا اور اسلام آباد میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے خلاف بی وائی سی کا طویل دھرنا بغیر نتیجہ رہے ہیں۔ پی ٹی ایم کے رہنماء منظور پشتین کو تربت میں بی وائی سی کے دھرنے میں شرکت کے اعلان کے بعد راستے میں گرفتار کرکے پنجاب میں قید رکھا گیا ہے۔

ماضی میں صرف بلوچ اضلاع ہی پارلیمانی سیاست سے علیحدہ رہے ہیں لیکن اب نظر آتا ہے کہ پی ٹی ایم بھی پشتون قوم پر ریاستی مظالم کے خلاف بلوچ موقف سے جڑے گی اور وسیع پیمانے پر انتخابی عمل کا بائیکاٹ ہوگا۔

ظاہر ہے ، عوامی شرکت کے بغیر بھی یہ ڈھونگ انتخابات ہوں گے اور طے شدہ نتائج کے تحت کٹھ پتلی حکومت بھی تشکیل دی جائے گی۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

انسٹا گرام اور فیس بک میں اجنبی افراد اب کم عمر صارفین کو میسجز نہیں بھیج سکیں گے

جمعرات جنوری 25 , 2024
میٹا نے انسٹا گرام اور فیس بک میسنجر میں 16 سال (کچھ ممالک میں 18 سال) سے کم عمر صارفین کے تحفظ کے لیے ایک نئی تبدیلی متعارف کرائی ہے۔کمپنی کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ میں بتایا گیا کہ کم عمر صارفین کے تحفظ کے لیے نئی میسجنگ پابندی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ