تحریر: رامین بلوچ
زرمبش اردو

8اور 9 اپریل کی درمیانی شب صرف شہید غلام محمد اور ان کے شہید رفقاء کی یاد گاری برسی کا دن نہیں، بلکہ بلوچ قومی شعور کی وہ خونی لکیر ہے جو سنگلاخ زمین پر بھی مزاحمت کا نقش بن کر ابھری۔ یہ رات ایک المناک سانحہ ہی سہی، مگر ہر گرا ہوا لہو ایک نئی صبحِ آزادی کی جدوجہد کا پیش خیمہ بنا، اور ہر شہادت، جدوجہد کو نئی روح عطا کرتی گئی۔
یہ دن ان قومی شہداء کے نام منسوب ہے جنہوں نے نہ صرف اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بلکہ غلامی کے خلاف ایسی فکری مزاحمت کی بنیاد رکھی جسے ریاستی تسلط کا کوئی بھی جبر مٹا نہیں سکتا۔ شہید غلام محمد بلوچ، شہید لالہ منیر بلوچ، اور شہید شیر محمد بلوچ نے محض سیاسی جدوجہد نہیں کی، بلکہ شعوری بیداری، فکری تنقید، اور قومی وحدت کا ایسا جامع بیانیہ تشکیل دیا جو آج بھی بلوچ قومی تحریک کی بنیاد ہے۔
شہید غلام محمد بلوچ کا شمار بلوچ تحریک کے ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے قوم دوستی کی سیاست کو موروثیت، شخصیت پرستی، اور غیر نظریاتی مہم جوئی سے آزاد کر کے فکری اور جمہوری بنیادوں پر استوار کیا۔ وہ سیاست میں ادارہ جاتی نظم و نسق کے داعی تھے، اور فردِ واحد کی اجارہ داری کے سخت مخالف تھے۔ وہ تحریک کو شخصی وابستگی کے بجائے ادارہ جاتی بنیادوں پر کھڑا کرنے کا فلسفہ رکھتے تھے، جہاں ہر کارکن، ہر سوچ، اور ہر آواز کو جگہ دی گئی۔
انتہائی محدود وسائل کے باوجود، شہید غلام محمد نے بلوچ وطن کے کونے کونے کا سفر کیا۔ انہوں نے بلوچ سماج کو ریاستی نوآبادیاتی اثرات سے آگاہ کیا اور قومی غلامی کو فقط سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ ایک فکری و تمدنی مسئلہ قرار دیا۔ ان کے نزدیک بلوچ قومی مسئلہ طبقاتی یا اقتصادی محرومی کا نہیں، بلکہ قومی غلامی کا ہے۔ ایک ایسا رشتہ جو قابض ریاست اور مقبوضہ قوم کے درمیان آقا و غلام کی صورت میں قائم ہے۔
ان کی سب سے بڑی کامیابی بلوچ نیشنل موومنٹ کی تشکیل تھی، جس کے بعد انہوں نے مختلف بلوچ آزادی دوست جماعتوں کو متحد کرکے ”بلوچ نیشنل فرنٹ“ جیسا اتحاد تشکیل دیا۔ اس اتحاد نے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے آزادی دوست رہنماؤں، دانشوروں، طلباء اور سیاسی کارکنوں کو ایک نیشنلسٹ پروگرام کے تحت متحد کیا۔ اس وحدت نے قومی تحریک کو ایک نئی سمت، نیا عزم اور فکری پختگی عطا کی۔
شہید غلام محمد صرف ایک سیاسی رہنماء نہیں، بلکہ ایک مفکر تھے۔ وہ قبائلی تقسیم، لسانی نفرت، اور فرسودہ سرداری نظام کو بلوچ وحدت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ان کا ویژن ایک جدید، فکری، جمہوری اور آزاد خودمختار متحدہ بلوچستان کا تھا۔ ان کی صداقت اور قربانی اس حقیقت کا عملی اظہار ہے کہ جب وہ دوسروں کی شہادت پر سرخ سلام پیش کرتے تھے، تو وہ خود بھی اسی راہ پر چلنے کو تیار تھے۔
ان کی جدوجہد کا ایک اہم پہلو جو اکثر نظر انداز کیا جاتا ہے، وہ بین الاقوامی سطح پر بلوچ قومی مسئلے کو اجاگر کرنے کی ان کی کوششیں ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندہ جان سولوکی کی بازیابی میں ان کا کردار محض انسانی ہمدردی نہیں بلکہ ایک مدبرانہ سیاسی عمل تھا، جس کی تعریف اقوامِ متحدہ نے بھی کی۔ اگرچہ اس مثبت عمل پر پاکستانی ریاست سخت نالاں تھی، لیکن عالمی سطح پر انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی۔
شہید غلام محمد کو اس سے قبل تین دسمبر 2006 کو کراچی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، لیکن کئی ماہ بعد بازیابی کے بعد انہوں نے قومی آزادی کی سیاسی و جمہوری جدوجہد سے دستبردار ہونے کے بجائے پارٹی تنظیمی عمل میں شامل ہوکر بی این ایم کی قیادت کے لیے ایک بار پھر منتخب ہوئے۔ اس دوران ریاست نے ان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے۔ تین اپریل 2009 کو عدالت میں پیشی کے بعد وہ دوبارہ جبری گمشدگی کا نشانہ بنے اور آٹھ اپریل کی رات ان کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کے مقام پر پھینکی گئیں۔
شہید غلام محمد وہ جدوجہد کرنے والے رہنما تھے جنہیں شہادت کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کی گئی، مگر ان کی فکر، بیانیہ اور جدوجہد کو خاموش نہیں کیا جا سکا۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی صدائیں ہمیشہ گونجتی رہی ہیں جو ظلم کے سناٹوں کو چیر کر نکلتی ہیں۔ جو صدیوں کی غلامی کو لفظوں، عملوں، اور بالآخر قربانیوں سے روند ڈالتی ہیں۔ ایسی فکر سے وابستہ لوگ عام انسانوں کی فہرست سے نکل کر تاریخ کے صفحوں میں جا بستے ہیں۔ شہید غلام محمد بلوچ بھی ایسی ہی ایک مفکر شخصیت تھے، جس کی فکر آج بھی زندہ ہے۔
شہید غلام محمد بلوچ بلوچ قومی تحریک میں صرف ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نہیں تھے، بلکہ ایک نظریہ تھے۔ ایک مزاحمتی شعور، جس نے غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے اپنی پوری حیات کو ایندھن کے طور پر پیش کیا۔ ان کی زندگی نہ صرف بلوچ تحریک کی تشکیل میں بنیادی کردار رکھتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی جدوجہد کو ان تحریکات کے برابر رکھا جا سکتا ہے جو چی گویرا، فرانز فینن، نیلسن منڈیلا، اور امیلکار کابرال جیسے انقلابی اذہان نے شروع کیں۔
ان کے نظریات کی بنیاد وہی تھی جو ہر آزاد انسان کی فطری خواہش ہے: قومی شناخت، آزادی، اور باوقار و خودمختار زندگی۔ وہ انقلابی تھے، اگرچہ ہتھیار بند نہیں تھے، وہ فکر سے لیس، دلیل سے روشن، اور شعور سے سرشار تھے۔ واجہ غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر اللہ نذر کے بعد وہ واحد رہنما تھے جنہوں نے نہ صرف پارلیمانی سیاست کو مسترد کیا بلکہ اس استحصالی نظام کو بھی بے نقاب کیا جو چند انکریمنٹس اور نام نہاد ترقی کے عوض بلوچ قوم کی آزادی کو گروی رکھنا چاہتا تھا۔
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر قوم کی آزادی کی تمنا خون سے لکھی جاتی ہے، پھر شعور سے شعور تک سفر کرتی ہے، اور آخرکار مزاحمت سے حقیقت میں ڈھلتی ہے۔ شہید واجہ اسی تسلسل کی ایک کڑی تھے۔ ان کی جبری گمشدگی اور شہادت نے ریاستی جبر کے نقاب کو چاک کیا، اور یہ واضح کر دیا کہ خوف زدہ وہی ہوتا ہے جسے اپنے فکر کی صداقت پر یقین نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا:
"ہم بحیثیت سیاسی شعوری انسان، کسی بھی انسان کو اس کے تاریخی، سماجی، جغرافیائی نیز تمام تر انسانی حقوق لینے کا مکمل اختیار دیتے ہیں۔ اور بلوچ تحریک کا مقصد و منزل بھی یہی ہے۔”
شہید غلام محمد بلوچ نے بلوچ تحریکِ آزادی کو عالمی انسانی شعور اور اخلاقی ضابطہ و قوانین کے دائرے میں متعارف کرایا۔ اور اسے نسل، انتقام، لسان اور تعصب سے پاک ایک اصولی، فکری اور سیاسی جدوجہد میں ڈھالا۔ وہ اس تصور سے یکسر انحراف کرتے تھے کہ بلوچ مزاحمت کسی قوم یا نسل سے نفرت پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک، پنجابی قوم سے اختلاف ان کی جلد کی رنگت، جسمانی ساخت، یا لسانی شناخت کی بنیاد پر نہیں تھا، بلکہ اس نوآبادیاتی سیاسی و عسکری ڈھانچے کے خلاف تھا جو قابض ریاست کی شکل میں بلوچ پر مسلط ہے۔
شہید غلام محمد کی فکر نے بلوچ مزاحمت کو ایک باشعور، مہذب اور عالمی سطح پر قابلِ فہم تحریک میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان کی شہادت، ایک فرد کی موت نہیں بلکہ نظریے کی زندگی ہے۔ ایسا نظریہ! جو آج بھی بلوچ گل زمین کے پہاڑوں، میدانوں، گلیوں اور بستیوں میں شعور بن کر گونج رہا ہے۔
آج کی دنیا میں، جہاں کئی اقوام اپنے حقِ آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں، غلام محمد کی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ مزاحمت صرف بارود سے نہیں، شعور سے بھی کی جاتی ہے۔ شہید غلام محمد سمیت ان تمام جبری گمشدہ بلوچوں، اور ان کی حراستی و جعلی مقابلوں میں قتل، بلوچ قوم کی اجتماعی اذیت عالمی دنیا کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ اور یہ سوال ان مہذب ممالک سے ہے کہ:
کیا انسانی حقوق کے معیار صرف ان خطّوں تک محدود ہیں جہاں ان کے سیاسی، سفارتی، داخلی، خارجی، معاشی اور جنگی مفادات وابستہ ہوں؟
کیا بلوچ قوم انسانی حقوق اور بین الاقوامی انصاف و امن کے دائرے میں نہیں آتی؟
آج اگر دنیا خاموش ہے تو یہ خاموشی محض لاپرواہی نہیں، بلکہ ایک مجرمانہ چشم پوشی ہے جو انسانی حقوق کے دعووں کو کھوکھلا اور "مہذب دنیا” کے نعروں کو ننگا کرتی ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی دنیا میں جو مساوات اور انصاف کی بات کی جاتی ہے، وہ بلوچ سرزمین پر کیوں گونگی ہو جاتی ہے؟ کیا انصاف صرف ان خطّوں کے لیے ہے جہاں طاقتور اقوام کے مفادات کو تقویت ملتی ہو؟ کیا انسانی وقار کا تعین اب اس بات سے ہوتا ہے کہ کس قوم کے وسائل عالمی طاقتوں کے ایجنڈے سے مطابقت رکھتے ہیں؟ اگر ہاں، تو پھر یہ نظام انصاف نہیں، بلکہ عالمی سامراج کا ایک اور چہرہ ہے جو انسانی حقوق کے لبادے میں جبر کو قانونی حیثیت دیتا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی ادارے کب تک بلوچ ماؤں کی سسکیوں کو نظرانداز کرتے رہیں گے؟ وہ لاپتہ بھائیوں کے انتظار میں بہنوں کی آنکھوں میں مسلسل جلتی امیدوں کی آگ کو کب محسوس کریں گے؟ ہر سال، ہر مہینے، ہر دن بلوچستان کے کسی نہ کسی گوشے سے ایک اور غلام محمد، ایک اور لالا منیر، ایک اور شیر محمد کو غائب کر دیا جاتا ہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی آزادی اور قومی شناخت کی بحالی چاہتے ہیں۔ وہ اس زمینی حقیقت کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں کہ بلوچ قوم بھی اس دنیا میں سانس لیتی ایک زندہ قوم ہے۔
بلوچ قوم کی جدوجہد اور احتجاجی عمل عالمی ضمیر کے دروازے پر دستک ہے۔ بلوچوں کی جبری گمشدگیوں اور حراستی قتل کے واقعات میں نہ صرف پاکستانی ریاست مجرم ہے، بلکہ اس جرم سے عالمی دنیا اور مہذب ممالک بھی بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ اگر فلسطین و کشمیر پر آنسو بہانا عالمی ضمیر کی نشانی ہے، اگر یوکرین کے لیے ہمدردی لازم ہے، تو بلوچوں کے لیے خاموشی کیوں؟
یہ وقت ہے کہ بلوچ قوم اس فکر سے جڑ جائے جو شہید غلام محمد کی تعلیمات کا تسلسل ہے۔ ایک فکر جو بتاتی ہے کہ ہماری تحریک نفرت پر نہیں بلکہ حقِ آزادی کے اصول پر کھڑی ہے۔ شہید غلام محمد بلوچ کا خواب، ان کا فلسفہ، اور ان کا بیانیہ آج بھی زندہ ہے۔ اور جب تک بلوچ وطن میں غلامی کے خلاف ایک بھی آواز باقی ہے، ان کا نام مزاحمت کی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جاتا رہے گا۔
اختتامیہ میں، میں یہ لکھنا چاہوں گا کہ اگر اختر مینگل واقعی بلوچ قوم کے درد کو محسوس کرتے ہیں، تو انہیں فیصلہ کن قدم اٹھانا ہوگا۔ پارٹی سیاست کی زنجیروں میں جکڑی سیاست اور ریاستی بیڑیوں کو توڑنے کے لیے انہیں شہید غلام محمد کی مانند بہادری، بابا مری کی طرح دوٹوک اور غیر متزلزل موقف، اور ڈاڈائے بلوچ کی مانند قربانی کا حوصلہ اپنانا ہوگا۔
وقت آ چکا ہے کہ بلوچ سیاست کو محض انتخابی عمل کی سطح پر محدود کرنے اور ریاستی جمہوریت کے سراب میں ڈبونے کے بجائے قومی مزاحمت کی حقیقی شاہراہ پر گامزن کیا جائے۔ بلوچ تاریخ کا بہتا ہوا خون، صدیوں کی قربانیوں کا نوحہ ہے، جو ہمیں باور کرواتا ہے کہ یہ جنگ صرف ساحل، وسائل یا نام نہاد ترقی کی نہیں بلکہ آزادی، وجود اور بقا کی جنگ ہے۔
اگر واقعی کوئی ہمدرد قوم دوستی کے سیاسی قافلے میں شامل ہونا چاہتا ہے، تو اُسے بلوچ فکر کو محض تقریری حوالہ نہیں، بلکہ عملی راستہ بنانا ہوگا۔ ریاستی پارلیمنٹ ایک ایسا ایوان ہے جس کی چھت تلے بلوچ قوم کے زخموں پر نمک چھڑکا جاتا ہے۔ اسے ایک خون آلود اسٹیج سمجھنا ہوگا۔
بلوچ سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ ان نمائشی نشستوں کو ترک کریں، اور ان ماؤں کی آہیں سنیں جنہوں نے اپنے جگر گوشوں کی مسخ شدہ لاشیں چادر میں لپیٹ کر دفنائیں۔ بلوچ عورت محض ماں، بہن یا بیوی نہیں بلکہ ایک مزاحمتی علامت ہے، جو تاریخ کے ہر صفحے پر اپنے حصے کی آگ سے گزر کر آتی ہے۔
ہماری سرزمین نے ہمیشہ تاریخ کے ہر حملہ آور کے خلاف بہادر، جری ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کو جنم دیا ہے۔ ان خواتین نے ہر استعمار کے سامنے سینہ سپر ہو کر بلوچ مزاحمت کی روایت کو زندہ رکھا۔ ان کی جدوجہد ہماری مزاحمتی وراثت کا درخشاں حصہ ہے۔ آج ماہ رنگ، بیبو بلوچ، یا گلزادی بلوچ اسی روایت کی جدید تمثیلیں ہیں۔ وہ کسی صنفی تقسیم کے تحت جدوجہد میں شریک نہیں—وہ محض "خواتین کی نمائندہ” نہیں، بلکہ وہ قومی آزادی کے سفر میں صفِ اول کی جہدکار ہیں۔
ہماری سرزمین، جس کی مٹی میں شہیدوں کا خون، ماؤں کی دعائیں اور حوصلوں کی ہر لہر بادِ مزاحمت کی سرگوشی کرتی ہے، صدیوں سے حملہ آوروں، غاصبوں اور استعماری قوتوں کے خلاف ایک فطری مزاحمت کی علامت رہی ہے۔
تاریخ کے ہر موڑ پر جب بھی کسی طاقت نے اس دھرتی کو غلام بنانے کی کوشش کی، اس نے صرف مردوں کی تلواروں کا سامنا نہیں کیا بلکہ ان ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی بے مثال جرات و استقامت سے بھی ٹکر لی جنہوں نے اپنے پلو سے زخم باندھے، اپنی لوریاں مزاحمت کے نغمے میں ڈھالیں، اور اپنے آنچلوں کو علم بنا کر میدانِ جدوجہد میں اتارا۔
ان کی قربانیاں اور ثابت قدمی اس مزاحمتی ورثے کا تسلسل ہیں جو چاکر، گہورام، نوری نصیر خان اور دیگر بلوچ رہنماؤں کی جدوجہد سے جڑا ہوا ہے۔ اور اس جنگ میں خواتین کا کردار محض حمایتی نہیں، قائدانہ رہا ہے۔
آج جب ہم بلوچ خواتین کو سڑکوں پر اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے آواز بلند کرتے دیکھتے ہیں، تو یہ محض احتجاج نہیں ہوتا — یہ ایک تاریخ کی صدائے بازگشت ہوتی ہے۔ یہ ان ماؤں کا تسلسل ہے جو اپنے بچوں کو آزادی کی دعا دے کر رخصت کرتی رہی ہیں؛ یہ ان بہنوں کا پیغام ہے جو گمشدہ بھائیوں کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں؛ اور یہ ان بیٹیوں کا خواب ہے جو اپنے والد کی راہ دیکھتے ہوئے انقلاب کے راستے پر پروان چڑھتی ہیں۔
استعمار کا ہتھیار ہمیشہ طاقت، ظلم اور خاموشی کا نفاذ رہا ہے۔ لیکن بلوچ خواتین کی مزاحمت نے اس خاموشی کو توڑا ہے، اور ہر جبر کو سوال میں بدل دیا ہے۔ یہی وہ انقلابی شعور ہے جو قوموں کی تقدیر بدلتا ہے۔ خواتین کی یہ جدوجہد اس بات کا ثبوت ہے کہ آزادی کا خواب صرف مردوں کے کاندھوں پر نہیں، عورتوں کے دل، ذہن اور قدموں میں بھی دھڑکتا ہے۔
بلوچ خواتین کی مزاحمت ہماری تاریخ کی نہ صرف پہچان ہے بلکہ ہمارے مستقبل کی ضمانت بھی۔ یہی تصور ہمیں آسیتا شانکر، وینیسا ریڈگریو اور روزا لکسمبرگ کی بین الاقوامی مزاحمتی تاریخ سے بھی ملتا ہے، جہاں عورت نے جدوجہد اور نظریہ اپنایا، اور دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہوئی۔
اختر مینگل کی جانب سے بلوچ خواتین کی رہائی کے لیے آواز بلند کرنا بلاشبہ ایک قابلِ تحسین اقدام ہے، مگر اس جدوجہد کی وسعت تبھی حقیقی معنوں میں معتبر ہوگی جب وہ عقوبت خانوں میں گمشدہ مردوں کے لیے بھی اتنی ہی توانا آواز اٹھائیں۔
تحریکِ آزادی کسی جنس، قبیلے یا رسم و رواج کی قید میں نہیں ہوتی؛ یہ ایک ایسی مزاحمتی آگ ہے جو ہر اس دل میں جلتی ہے جو غلامی کو قبول نہیں کرتا۔ قبائلی روایات کو ڈھال بنا کر مزاحمت کے دائرے کو محدود کرنا ایک مغالطہ ہے، جو صرف ریاستی بیانیے کو سہارا دیتا ہے۔
قوم دوستی محض انتخابی نعرہ نہیں بلکہ وہ فکری ستون ہے جس پر حریت کا خواب استوار ہوتا ہے۔ آزادی کی تحریک ایوانوں کی مراعات یا نشستوں کی محتاج نہیں۔ یہ اُن سڑکوں پر رقم ہوتی ہے جہاں لاپتا بیٹے، باپ، بھائی اپنے لہو سے دلیل دیتے ہیں کہ زندہ قومیں صرف جغرافیے سے نہیں، مزاحمت سے پہچانی جاتی ہیں۔
جو لوگ اس تحریک کو محض سیاسی سوداگری میں تولتے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ تاریخ خاموش نہیں رہتی؛ وہ گواہیاں دیتی ہے، اور بنگلہ دیش کے صفحات پر آج بھی ایسے کرداروں کے چہرے سیاہ ہیں جنہوں نے قوم کے لہو کو سودے میں ڈھالا۔ بلوچ تحریک کو ہر اُس دراڑ سے بچانا ہوگا جہاں فردی مفاد، قبائلی انا یا سیاسی مفاہمت قومی نصب العین پر حاوی ہو جائے۔