بلوچ عورت: مزاحمت کی روح، شعور کی روشنی

تحریر:رامین بلوچ
زرمبش اردو

بلوچستان میں جاری قومی خود مختیاری کی جدوجہد کو ایک طویل عرصے سے ریاستی جبر، طاقت کے استعمال اور فسطائی حربوں کے ذریعے دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ حالیہ دنوں خاص طور پر بلوچ یک جہتی کمیٹی (بی وائی سی) جیسی سیاسی تنظیمیں جو پرامن طریقوں سے بلوچ قومی شناخت، بقاء اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے لیے پائمالیوں کے خلاف وسیع تر قومی سرگرمیوں کا حصہ ہیں، اُن کے خلاف ریاست کی جانب سے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤنز، جبری گمشدگیاں، اور بلیک میلنگ کے ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ یہ وہ مظالم ہیں جو ہمیں میسولینی کی فاشزم اور ہٹلر کی نازی ازم کی یاد دلاتے ہیں، جہاں اجتماعی سزا، خوف و دہشت کو مسلط کرنے کا حربہ، اور سیاسی اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے ریاستی طاقت کو وحشیانہ انداز میں بروئے کار لایا گیا تھا۔

حالیہ مہینوں میں گل زادی جیسے باہمت کرداروں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا، اور ڈاکٹر صبیحہ کے خلاف سیاسی بلیک میلنگ جیسے گھناؤنے ہتھکنڈے، اس بات کا ثبوت ہیں کہ ریاست نہ صرف مردوں بلکہ خواتین کو بھی سیاسی مزاحمت کی پاداش میں نشانہ بنا رہی ہے۔ مگر قابل فخر بات یہ ہے کہ بلوچ خواتین نے اس جبر کے سامنے جھکنے کے بجائے اپنی سیاسی شعور اور قومی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا میدان میں اُترنا جزباتی یا وقتی فیصلہ نہیں بلکہ ایک بیدار شعور، تاریخی ادراک اور قومی فریضہ ہے۔

بلوچ تحریکِ آزادی کی خاص بات یہی ہے کہ اس میں مرد و خواتین کی شرکت برابر کی بنیاد پر ہے۔ بلوچ سماج نے اس جدوجہد میں جینڈر کی تفریق کو مسترد کر دیا ہے۔ آج کی بلوچ عورت صرف ماں، بہن، بیوی یا بیٹی نہیں، بلکہ وہ ایک مزاحمتی کارکن ہے، ایک نظریاتی فکری جہدکار ہے جو جبری گمشدگیوں، ریاستی جبر اور قومی سماجی ناانصافیوں کے خلاف علمِ جدوجہد بلند کر چکی ہے۔

یہ تصور کہ جدوجہدِ آزادی صرف مردوں کا کام ہے، بلوچ تاریخ کے ساتھ زیادتی کی مترادف ہے۔تاریخِ انسانی کی جدوجہدِ آزادی جب جب ظلم، استبداد اور سامراج کے خلاف ابھری، تب تب خواتین نے صرف کسی کی ہمراہی نہیں کی، بلکہ قیادت کے مقام پر فائز ہو کر خود مزاحمت کی علامت بنیں۔ الجزائر کی تحریکِ آزادی میں جميلة بوحيرد جیسی نڈر خاتون نے فرانسیسی سامراج کے خلاف نہ صرف عملی جدوجہد کی بلکہ اذیت خانوں میں بھی استقامت کی ایسی مثال قائم کی جو آج بھی وجدان کو جھنجھوڑ دیتی ہے۔

ویتنام کی جنگ میں ترانگ بہنوں (Trưng Sisters) کی صدیوں پرانی قربانیاں اور ووی تھی ساؤ (Võ Thị Sáu) جیسے انقلابی کرداروں نے قابض قوتوں کے خلاف مزاحمت کی تاریخ رقم کی۔ جنوبی افریقہ میں وینی منڈیلا نے نسل پرستی کے خلاف جدوجہد میں خواتین کی انقلابی طاقت کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔ فلسطینی جہدِ آزادی میں لیلیٰ خالد کا نام آج بھی مزاحمت کی علامت کے طور پر زندہ ہے،
ان ہی صفوں میں کرد خواتین جہد کاروں کا بھی اہم کردار ہے جنہوں نے نوآبادیاتی سفاکیت کے خلاف صفِ اول میں لڑائی لڑرہی ہے، بلکہ مشرق وسطیٰ میں قابض سیاسی ساخت کو چیلنج کرتے ہوئے مزاحمت کی بنیاد رکھی۔ کرد نسل کشی کے خلاف لڑنے والی کرد خواتین، اور خصوصاً ویمن پروٹیکشن یونٹس (YPJ) کی گوریلا جنگجو خواتین، جدید دور کی حریت پسند روایات کا تابندہ حوالہ ہیں۔ ان خواتین نے بندوق، کتاب اور نظریے کو یکجا کرتے ہوئے یہ پیغام دیا کہ آزادی محض ایک خواب نہیں، بلکہ اس کے لیے لڑنا، جینا اور مرنا لازم ہوتا ہے۔یہ تمام خواتین—چاہے وہ الجزائر کی گلیوں میں ہوں یا ویتنام کے جنگلوں میں، جنوبی افریقہ کی جیلوں میں ہوں یا کرد پہاڑوں کی بلندیوں پر—آج بھی ہمارے اجتماعی شعور میں جرأت، ایثار، اور غیر متزلزل عزم کی مجسم صورت میں زندہ ہیں۔

ان تمام مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جدوجہدِ آزادی میں خواتین کی شرکت کسی قوم کی آزادی کو نظریاتی، اخلاقی اور تنظیمی قوت فراہم کرتی ہے۔

لہٰذا، بلوچ قومی تحریک کو قبائلی روایات کے عدسے سے دیکھنا، یا اسے محض مردوں کی جدوجہد کے طور پر پیش کرنا ایک فکری اور سیاسی مغالطہ ہے۔ آج کی بلوچ عورت نہ صرف قومی شعور سے لیس میدانِ سیاست میں موجود ہے بلکہ وہ اپنی قوم کی نظریاتی صفوں میں ایک ناقابلِ شکست مورچہ ہے۔ جبری گمشدگی صرف ایک مرد کو نہیں، اُس کی ماں، بیٹی ، بہن اور بیوی کو بھی نگلتی ہے۔ یہ قومی زخم، اجتماعی کرب کی صورت میں پورے سماج پر اثر انداز ہوتا ہے۔

بی این پی کا لانگ مارچ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے، لیکن اگر بلوچ جدوجہد کو صرف قبائلی یا مردانہ مزاحمت کے تناظر میں دیکھا گیا تو ہم نہ صرف اس کی وسعت کو محدود کر دیں گے بلکہ اس کی فکری گہرائی سے بھی ناواقف ہوجائیں گے۔ بلوچ خواتین کی شمولیت، اُن کی قربانیاں اور اُن کا نظریاتی استحکام، اس تحریک کو بین الاقوامی تحریکاتِ آزادی کی صف میں وہ مقام دلاتا ہے جہاں آزادی، مساوات، اور انسانی وقار کی جدوجہد صنفی تفریق سے بالا ہو جاتی ہے۔

بلوچ تحریکِ آزادی ایک مزاحمتی، شعوری، اور نظریاتی تحریک ہے۔ اس میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ،سمی دین گل زادی، ڈاکٹر صبیحہ، ڈاکٹر شلی بلوچ ، حوران بلوچ ،بلوچ وومن فورم اور بے شمار معلوم نامعلوم بلوچ خواتین اُس گل لالہ کی مانند ہیں جنہوں نے اپنی خوشبو اور لال رنگ، قوم کی بقا کے نام پر قربان کیے ہیں۔ اُنہیں نظرانداز کرنا، اس تحریک کے وجود کو انکار کرنے کے مترادف ہوگا۔

یہ جدوجہد ہر اُس شخص کی ہے جو ظلم کے خلاف کھڑا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اور جب تاریخ لکھی جائے گی تو بلوچ جانباز مردوں کی مانند بلوچ بہادر بہنوں کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا،

بلوچ قومی تحریک، محض ایک زمینی تنازعہ یا سیاسی اختلاف نہیں بلکہ ایک فکری، تہذیبی، اور انقلابی جدوجہد ہے جو سامراجی طاقت، نوآبادیاتی ریاستی ڈھانچہ، اور انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف بیدار شعور کی علامت بن چکی ہے۔ اس تحریک میں بلوچ خواتین کا کردار محض ثانوی نہیں بلکہ مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور آج کی تاریخ میں ماہ رنگ گل زادی، بیبو بلوچ، شاجی بیبرگ، ماما غفار اور دیگر درجنوں انقلابی و مزاحمتی کردار ریاستی جبروستم کا سامنا کرتے ہوئے ایک تاریخی عہد سے گزر رہے ہیں۔

نوآبادیاتی ریاستیں ہمیشہ خوف، خاموشی، اور دہشت کے ذریعے مقبوضہ اقوام کی مزاحمت کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جبری گمشدگیاں، ریاستی حراست، جعلی مقابلے، اور سیاسی اظہار رائے پر پابندی میڈیا کا محاصرہ ان کا خاص ہتھیار ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ریاست جتنا زیادہ جبر کرتی ہے، اتنا ہی زیادہ قومی تحریکوں کا عزم اور شعور گہرا ہوتا جاتا ہے۔ آج ماہ رنگ ،سمی دین، بیبو، گل زادی، ڈاکٹر صبیحہ اور دیگر سینکڑو بلوچ خواتین کے خلاف ریاست جس خوفناک طاقت کا استعمال کر رہی ہے، وہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان خواتین کی آوازیں، ان کی مزاحمت، اور ان کا شعور ریاست کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔

قومی شعور کی ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ خاموشی خود ایک جرم بن جاتی ہے جب سچ بولنے کا وقت ہو۔ جدوجہد کی اذیت وقتی ہوتی ہے، مگر خاموشی ایک مسلسل اذیت بن کر انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہی وہ فکری بنیاد ہے جو بلوچ جہد کاروں کو خاموشی کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرتی ہے۔ ریاست کے پاس خوف پیدا کرنے کے علاوہ کچھ نہیں بچتا، لیکن قومی جہد کاروں کے پاس سچائی، عزم، اور قربانی کا وہ ہتھیار ہے جو ریاستی خوف کو نگل لیتی ہے۔

بلوچ خواتین کا قومی تحریک میں شمولیت یا حصہ داری میں جذباتی یا حادثاتی نہیں بلکہ شعوری و نظریاتی اور تاریخی ادراک کا نتیجہ ہے۔ وہ اس تحریک کی فکری معمار بھی ہیں۔ بلوچ خواتین نے گرفتاری، گمشدگی، حتیٰ کہ شہادت کے امکانات کے باوجود مزاحمت کا راستہ نہیں چھوڑا۔ یہ ان کی انقلابی استقامت کی معراج ہے۔
آج بلوچ خواتین صرف مظلوم کی علامت نہیں بلکہ مزاحمت، شعور، اور قیادت کی علامت ہیں۔ وہ اپنے خون سے نئی تاریخ رقم کر رہی ہیں، اپنی زبان،کردار،عمل اور اپنی قلم سے نوآبادیاتی بیانیے کو چیلنج کر رہی ہیں۔

بلوچ قوم کو اب مزید بڑے امتحانات سے گزرنا ہوگا۔ لیکن ہر غیر متوقع صورتحال میں بلوچ جہد کاروں کو تیار رہنا ہوگا۔ جس طرح سورج طلوع ہونے سے پہلے رات کی تاریکی گہری ہوتی ہے، ویسے ہی آزادی سے پہلے جبر کی شدت بھی بڑھتی ہے۔ لیکن جب قوم کی بیٹیاں آگے بڑھتی ہیں، تو تاریخ کی رفتار بدل جاتی ہے۔
بلوچ عورت محض ایک ماں یا بیٹی نہیں، وہ انقلاب کا چہرہ ہے، مزاحمت کی روح ہے، اور شعور کی روشنی ہے۔

وہ صدیوں پر محیط جدوجہد، مزاحمت اور شعور کی ایک علامت ہے۔ وہ محض ایک جسمانی وجود نہیں، بلکہ ایک فکری قوت ہے جو ظلم کے اندھیروں میں چراغ بن کر جلتی رہی ہے۔ اُس کی کوکھ نے نہ صرف نسلوں کو جنم دیا، بلکہ ایسے سپوت پیدا کیے جنہوں نے اپنی زمین، تہذیب اور آزادی کے لیے جانوں کا نذرانہ دیا۔

بلوچ عورت صحراؤں کی وسعت جیسی صابر، پہاڑوں کی مانند استوار، اور سمندر کی گہرائی جیسی پرمعنی ہے۔ اُس کی خاموشی بھی مزاحمت کی زبان ہے، اور اُس کی توار ،ہکل بھی شعور کی پکار ہے۔ جب وہ لوری دیتی ہے، تو اُس میں آزادی کے خواب پنپتے ہیں، اور جب وہ ماتم کرتی ہے، تو وہ تاریخ کے صفحات پر خون سے لکھی گئی داستانوں کی گواہی بن جاتی ہے۔

یہ عورت محض گھر کی چار دیواری میں قید ایک مخلوق نہیں، بلکہ وہ سیاسی شعور، سماجی تبدیلی اور فکری بیداری کی ایک روشن مثال ہے۔ اُس کی موجودگی ہر اس محاذ پر محسوس کی جا سکتی ہے جہاں استحصال و جبر نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ چاہے وہ کسی گمشدہ بیٹے کے لیے انصاف کی تلاش ہو یا آزادی کی میدانِ رزم ہو،بلوچ عورت ہر صف میں، ہر لمحے، استقامت کی صورت موجود ہے۔

اس شعور کی روشنی کو بجھنے دینا نہ صرف ایک تاریخی ناانصافی ہو گی بلکہ ایک فکری سانحہ بھی، کیونکہ جب عورت کا شعور بجھتا ہے، تو پوری قوم تاریکی میں ڈوب جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ عورت کی جدوجہد کو محض ایک صنفی تحریک سمجھنا غلطی ہو گی؛ یہ درحقیقت انسانیت، خودداری، اور آزادی کی تحریک ہے۔

لہٰذا، یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اس روشنی کو نہ صرف قائم رکھیں بلکہ اسے مزید فروغ دیں، تاکہ آئندہ نسلیں ایک بااختیار، باشعور اور باوقار عورت کے تصور کے ساتھ پروان چڑھیں۔ بلوچ عورت صرف انقلاب کا چہرہ نہیں، وہ خود انقلاب ہے—ایک ایسی لہر جو ہر بار وقت کے جمود کو توڑتی ہے اور تاریخ کو نئے معنی دیتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

نوشکی: فائرنگ سے ایف سی اہلکار ہلاک

منگل اپریل 8 , 2025
نوشکی کے علاقے قادر آباد میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے ایف سی (فرنٹیئر کور) کا ایک اہلکار ہلاک ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والے اہلکار کی شناخت ظاہر ولد گوہر خان کے نام سے ہوئی ہے، جو عید کی چھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا۔ مسلح […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ