تحریر: کوہ زاد (حصہ دوم)
زرمبش اردو

مجھے بھی تمہارے شہر سے ویسا ہی پیار ہے جیسے تمہیں اپنی جنم بھومی سے ہے۔ بلکہ اب تو یہ سمجھ نہیں آتا کہ کہاں رہوں۔ جب گھر جاتا ہوں تو تمہارے شہر، یعنی دیرو سے جڑی یادیں بے چین کر دیتی ہیں، اور میں گھر والوں کو بہانے بنا کر وہاں سے نکل آتا ہوں۔
اس شہر کا انمول تحفہ ماہک اور اس سے جڑی بہترین یادیں، کچھ کیمرے میں محفوظ ہیں اور کچھ دل میں۔ اگر کبھی بھلا پایا تو وہ لمحہ میری رخصتی کا ہوگا، وگرنہ یہ ممکن نہیں۔
بہرحال، ہمارا موضوع تم سے آشنائی کے بعد دیرو تھا۔ میری کیفیت شہر میں داخل ہونے کے بعد کچھ یوں تھی جیسے کوئی دیوانہ کسی کی یاد میں تڑپتا ہو، جیسے کسی نویلی دلہن کے لیے شام کا منظر ہو، یا جیسے برفباری میں چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے شال کا نظارہ ہو۔
کاش، شہر کے مغربی کنارے پر کوئی بلند و بالا پہاڑ ہوتا، جہاں سے ہم تمہارے پورے شہر کا نظارہ کر سکتے اور اس کے دلکش مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے۔
ہم ڈیرہ غازی خان میں داخل ہوئے تو حسبِ معمول دوست بائیک لیے کھڑا تھا۔ سفر کے بعد، ہمیشہ کی طرح، ہم نے چائے خانے کا رخ کیا۔ اس شام، سورج آہستہ آہستہ اوجھل ہو رہا تھا، اور ہمارا وفادار ساتھی، سگریٹ، ادبی مباحثے کے ساتھ شامل ہو گیا۔ محفل جمی، دیوان ہوا، اور دیکھتے ہی دیکھتے شام رات میں بدل گئی۔ پھر ہم اپنے اوطاق کی طرف چل دیے۔
وہی سگریٹ، وہی بکھری ہوئی کتابیں، اور کمرے کی دیواروں پر چند تصویریں— بانک کریمہ، خیر بخش مری اور نواب بگٹی کی تصویریں۔ یہ بلوچ طلبہ کی رہائش گاہ تھی، جہاں ناپختہ خیالات نظریے میں ڈھل کر جدوجہد کی راہوں کے مسافر بنتے ہیں۔ یہ وہ کمرہ تھا جہاں قہقہوں کے بجائے سیاست اور تحریک پر مباحثے دیواروں سے ٹکراتے تھے۔
رات بھر گفتگو ہوتی رہی۔ موضوع کبھی سیاست ہوتا، کبھی تحریک، کبھی فلسفہ، اور کبھی مارکسزم و نیشنلزم۔ جب اندھیرا چھٹنے لگا اور صبح کی خوشگوار ہوا کھڑکی سے اندر داخل ہوئی، تو نیند کا خیال آیا۔ مگر تمہارے گھر کو دیکھنے کی بےچینی میں سونا ممکن نہ تھا۔ نیند اُجڑ چکی تھی۔ میں نے دوستوں کے جاگنے کا انتظار کیا تاکہ جلد ان مقامات کا نظارہ کر سکوں، جہاں تم طواف کرتی تھی۔
جاری ہے۔