Hard State Policiesسخت ریاستی پالیسیاں

تحریر: مزار بلوچ
زرمبش اردو

سخت ریاستی پالیسیاں ایک ایسی طرزِ حکمرانی کو ظاہر کرتی ہیں جہاں ریاستی طاقت کو سختی اور جبر کے ساتھ نافذ کیا جاتا ہے، جس کا مقصد حکومتی اختیار کو مستحکم کرنا، قومی سلامتی کو یقینی بنانا، اور ریاستی قوانین کی سختی سے پاسداری کرانا ہوتا ہے۔ ان پالیسیوں میں سخت گیر قوانین، سکیورٹی فورسز کے وسیع اختیارات، شہری آزادیوں پر قدغن، اور اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے جابرانہ اقدامات شامل ہوتے ہیں۔ اکثر اوقات، یہ پالیسیاں عوامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے اور ملک میں استحکام پیدا کرنے کے نام پر نافذ کی جاتی ہیں، لیکن عملی طور پر یہ جمہوری اقدار، آزادیٔ اظہار، اور بنیادی انسانی حقوق پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ایسی ریاستیں، جن میں سخت ریاستی پالیسیاں رائج ہوتی ہیں، عام طور پر سنسرشپ، نگرانی، اور غیر معمولی اختیارات کے ذریعے عوام پر کنٹرول برقرار رکھتی ہیں۔ کسی بھی اختلافی آواز کو دبا دیا جاتا ہے، سیاسی مخالفین کو ہراساں یا گرفتار کیا جاتا ہے، اور قانونی نظام کو اکثر حکومتی مقاصد کے تحت استعمال کیا جاتا ہے۔ ان پالیسیوں میں انسدادِ دہشت گردی قوانین، قومی سلامتی کے سخت ضوابط، اور ہنگامی حالات کے نام پر نافذ کی جانے والی سختیاں شامل ہوسکتی ہیں، جو بظاہر عوامی مفاد میں نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت ریاستی جبر کو فروغ دیتی ہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ ان پالیسیوں کو ملکی استحکام، ترقی، اور سلامتی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، لیکن طویل المدتی طور پر یہ پالیسیاں عوامی بےچینی، خوف کے ماحول، اور سیاسی و سماجی انتشار کو جنم دے سکتی ہیں۔ جمہوریت کی مضبوطی، عوامی رائے کی آزادی، اور بنیادی انسانی حقوق کا احترام ہی ایک متوازن اور پائیدار طرزِ حکمرانی کی ضمانت دے سکتا ہے، جہاں سخت پالیسیوں کی جگہ انصاف، مساوات، اور شفافیت پر مبنی نظام کو فروغ دیا جائے۔

قابض ریاست اپنی گرفت کو مضبوط رکھنے اور مقبوضہ سرزمین میں مزاحمت کو کچلنے کے لیے سخت ریاستی پالیسیوں کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہے۔ ان پالیسیوں کا بنیادی مقصد عوامی بغاوت اور آزادی کی تحریکوں کو دبانا، خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا، اور ریاستی تسلط کو ناقابلِ چیلنج بنانا ہوتا ہے۔ قابض قوتیں ان پالیسیوں کے تحت غیر معمولی سیکیورٹی قوانین نافذ کرتی ہیں، جن کے ذریعے ماورائے عدالت گرفتاریاں، جبری گمشدگیاں، اور سخت فوجی کارروائیاں عام ہوجاتی ہیں۔ عوامی آزادیوں پر قدغن لگا کر، میڈیا پر سخت سنسرشپ نافذ کرکے، اور اظہارِ رائے کو محدود کر کے قابض ریاست مقامی آبادی کو خاموش رکھنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ مزاحمتی آوازیں پنپنے نہ پائیں۔ مزید برآں، قابض حکومتیں قانونی نظام کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر مزاحمتی قیادت کو قید، جلاوطنی، یا حتیٰ کہ موت کے ذریعے راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ تعلیمی نصاب میں رد و بدل، ثقافتی شناخت کو مٹانے کے اقدامات، اور آبادیاتی تبدیلیوں کے ذریعے مقبوضہ علاقوں کی سماجی و سیاسی ساخت کو تبدیل کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمتی قوتوں کی جڑیں کمزور ہوجائیں۔ ریاستی جبر کے تحت ان علاقوں میں اقتصادی پابندیاں، نقل و حرکت پر قدغن، اور روزگار کے مواقع محدود کر دیے جاتے ہیں تاکہ عوامی زندگی دشوار ہو اور وہ مزاحمت کے بجائے بقا کی جنگ میں الجھ کر رہ جائیں۔ ان سخت گیر پالیسیوں کے ذریعے قابض ریاست ایک ایسا ماحول تخلیق کرتی ہے جہاں خوف، بےیقینی اور ریاستی طاقت کا ایسا جبر قائم ہو جائے کہ لوگ کسی بھی قسم کی منظم مزاحمت کی ہمت نہ کر سکیں۔ تاہم، تاریخ گواہ ہے کہ جبر کی بنیاد پر قائم کیا گیا تسلط ہمیشہ عارضی ہوتا ہے، اور مزاحمت کی چنگاری کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہتی ہے، جو بالآخر آزادی اور انصاف کی راہ ہموار کرتی ہے۔

قابض ریاست میڈیا اور پروپیگنڈے کو ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے تاکہ اپنے عوام کو مقبوضہ سرزمین کے خلاف ذہنی طور پر تیار کرے اور وہاں کے محکوم عوام کو دہشت گرد، ملک دشمن، یا غیر ملکی ایجنٹ قرار دے کر ان کے حق میں کسی بھی ہمدردی کے جذبے کو دبایا جا سکے۔ ریاستی کنٹرول میں چلنے والے ذرائع ابلاغ اور منظم پروپیگنڈہ مشینری حقیقت کو مسخ کر کے ایسا بیانیہ تشکیل دیتی ہے جس میں قابض حکومت کو ایک محافظ اور امن کے رکھوالے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ مظلوم عوام کی جدوجہد کو بیرونی سازش، شدت پسندی، یا بغاوت کا نام دے کر ان کی قانونی و اخلاقی حیثیت کو مجروح کیا جاتا ہے۔ میڈیا ہر ظلم اور جبر کو ریاستی دفاع کے طور پر پیش کرتا ہے اور قابض افواج کی بربریت کو بہادری، قربانی، اور قومی فخر سے تعبیر کرتا ہے۔ عوام کے جذبات کو ابھارنے کے لیے حب الوطنی کا ایسا زہر ذہنوں میں انڈیلا جاتا ہے کہ وہ سچائی کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔ مظلوموں کی آہوں، ان کے خون میں نہائے گھروں، اور ان کی تباہ حال بستیوں کو نظر انداز کر کے صرف ریاستی بیانیہ قبول کر لیا جاتا ہے۔ قابض ریاست کے عوام نہ صرف ریاستی جبر کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس سے براہِ راست فائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ مقبوضہ سرزمین کو ایک منافع بخش معاشی ذریعہ بنا دیا جاتا ہے جہاں کے وسائل بےدریغ لوٹے جاتے ہیں، زمینوں پر قبضہ کیا جاتا ہے، اور وہاں کے عوام کو معاشی بدحالی میں دھکیل کر ان کے وسائل اور محنت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف قابض حکومت کے جبر کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں، کیونکہ اس ظلم سے ان کی معیشت مستحکم ہوتی ہے، ان کے شہروں کی ترقی ممکن ہوتی ہے، اور وہ آرام و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں، جبکہ مقبوضہ سرزمین کے عوام خون میں نہاتے ہیں، ظلم سہتے ہیں، اور اپنی آزادی کے لیے بلکتے ہیں۔ قابض ریاست کے عوام کے لیے جنگی جنون، تفریح اور فخر کا ذریعہ بن جاتا ہے، جہاں وہ ظالم فوج کے مظلوموں پر حملوں کو فخریہ دیکھتے ہیں، ان کی تباہی کے مناظر کو سراہتے ہیں، اور ظالموں کے قصیدے پڑھتے ہیں۔ وہ اپنے کھانے کی میزوں پر ان مظلوموں کے خلاف نفرت انگیز گفتگو کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ان کے خون کو جائز قرار دیتے ہیں، اور ہر ظلم کو قومی بقا کی جنگ کا حصہ بنا کر ان کے حق میں ہر ممکن ناانصافی کو درست ثابت کرتے ہیں۔ یہی پروپیگنڈہ اور ریاستی بیانیہ ایک پوری قوم کو بےحسی، ظلم اور جبر کی حمایت پر آمادہ کر دیتا ہے، جہاں انصاف دفن ہو جاتا ہے، سچائی پسِ پردہ چلی جاتی ہے، اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو اپنے ہی انسانوں کے خون سے خوشی کشید کرتا ہے، اپنی عیاشی کے لیے دوسروں کی زندگیوں کو برباد کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا، اور ظلم کو طاقت اور ترقی کا ذریعہ سمجھ کر اس پر فخر کرتا ہے۔

قابض ریاست ہمیشہ سچ سے خائف رہتی ہے، کیونکہ سچائی ظلم کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے۔ جب کوئی سیاسی یا سماجی جماعت قابض ریاست کے جبر کو بےنقاب کرنے، حق کی آواز بلند کرنے، اور محکوم عوام کے حقوق کا دفاع کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو ریاست انہیں ایک خطرہ سمجھ کر ان پر بے رحمانہ کریک ڈاؤن شروع کر دیتی ہے۔

یہ کریک ڈاؤن کئی شکلوں میں سامنے آتا ہے۔ سب سے پہلے، ان جماعتوں کو بدنام کرنے کے لیے زہریلا پروپیگنڈہ شروع کیا جاتا ہے۔ انہیں باغی، دہشت گردوں کے حامی، یا بیرونی ایجنٹ قرار دے کر عوام کے سامنے ان کا کردار مسخ کیا جاتا ہے، تاکہ لوگ ان کی حمایت چھوڑ دیں اور انہیں ریاست دشمن سمجھنے لگیں۔ میڈیا کو استعمال کر کے جھوٹے الزامات کا طوفان کھڑا کیا جاتا ہے، اور سچ بولنے والوں کی آواز کو سننے سے پہلے ہی رد کر دیا جاتا ہے۔ جب پروپیگنڈے سے کام نہ چلے، تو ریاست طاقت کا بے دریغ استعمال کرتی ہے۔ ان جماعتوں کے دفاتر پر چھاپے مارے جاتے ہیں، ان کے رہنماؤں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر گرفتار کر لیا جاتا ہے، اور کارکنوں کو جبری گمشدگی، تشدد، یا ماورائے عدالت قتل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ زندہ بچ جاتے ہیں، انہیں اتنا خوفزدہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں یا جلاوطنی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ریاستی ہتھکنڈے یہیں پر ختم نہیں ہوتے۔ جو صحافی، ادیب، یا دانشور ان جماعتوں کے مؤقف کو جگہ دیتے ہیں، انہیں بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان پر بغاوت کے الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کی نوکریاں ختم کر دی جاتی ہیں، یا انہیں قتل کی دھمکیاں دے کر خاموش کرایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی آزادیٔ اظہار پر قدغن لگا دی جاتی ہے، اختلافی آوازوں کو دبانے کے لیے سنسرشپ، پابندیوں اور سائبر قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے، تاکہ کوئی بھی قابض ریاست کے خلاف سچ بولنے کی جرات نہ کر سکے۔ یہ سب اقدامات اس خوف کی علامت ہوتے ہیں جو قابض ریاست کے دل میں سچ کے لیے ہوتا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر سچ عوام تک پہنچ گیا، اگر لوگ اپنے حقوق سے آگاہ ہو گئے، اور اگر ظلم کی حقیقت بےنقاب ہو گئی، تو اس کے جبر کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ اسی لیے وہ ہر اس جماعت، ہر اس آواز، اور ہر اس تحریک کو کچلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی جو الفاظ کی طاقت سے اس کے ظلم کو چیلنج کرتی ہے۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ ظلم کا راج ہمیشہ نہیں رہتا، اور سچائی کی شمع جتنی دبائی جائے، اتنی ہی روشن ہوتی جاتی ہے۔

تاریخ ایسے بےشمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں قابض ریاستوں اور جابرانہ حکومتوں نے سخت ریاستی پالیسیاں نافذ کر کے سچ کو دبانے، مظلوموں کو کچلنے اور اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی۔ یہ پالیسیاں بظاہر امن و استحکام کے نام پر نافذ کی گئیں، لیکن حقیقت میں ان کا مقصد محکوم اقوام کو غلامی میں جکڑنا، وسائل پر قبضہ برقرار رکھنا اور ہر اس آواز کو خاموش کرنا تھا جو آزادی اور انصاف کی بات کرتی تھی۔

برطانوی سامراج اور ہندوستان (1857-1947)

1857 کی جنگِ آزادی کے بعد برطانوی راج نے ہندوستان پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے سخت گیر پالیسیوں کا آغاز کیا۔ بغاوت کے خدشے کے پیشِ نظر عوامی آزادیوں پر قدغن لگائی گئی، پریس پر سنسرشپ نافذ کی گئی، اور سیاسی سرگرمیوں کو خطرہ قرار دے کر آزادی کے متوالوں کو غدار ٹھہرایا گیا۔ رولٹ ایکٹ (1919) جیسے کالے قوانین نافذ کر کے لوگوں کو بغیر مقدمے کے گرفتار کرنے اور قید میں ڈالنے کا اختیار حاصل کیا گیا۔ جلیانوالہ باغ جیسے سانحات میں ظلم کی انتہا کر کے عوام پر دہشت بٹھائی گئی تاکہ کوئی دوبارہ آزادی کی جرات نہ کرے۔

نازی جرمنی اور یہودیوں کا قتل عام (1933-1945)

ایڈولف ہٹلر کی قیادت میں نازی حکومت نے جرمنی میں فاشسٹ ریاستی پالیسیاں نافذ کیں، جن کے تحت آزادیٔ اظہار کو سختی سے دبایا گیا اور ہر وہ فرد جو حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کرتا، اسے بغاوت کے زمرے میں ڈال کر خاموش کر دیا جاتا۔ یہودیوں کو ریاستی پروپیگنڈے کے ذریعے سازشی عناصر قرار دیا گیا، جس کا نتیجہ ان کے وسیع پیمانے پر قتلِ عام کی صورت میں نکلا۔ میڈیا کو مکمل طور پر حکومت کے زیرِ اثر رکھا گیا، تاکہ نازی جرائم کو چھپایا جا سکے اور عوام کو جنگی جنون میں مبتلا رکھا جا سکے۔

فلسطین پر اسرائیلی قبضہ (1948-موجودہ)

1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کے سلسلے کا آغاز ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔ قابض ریاست نے فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بےدخل کرنے، بستیوں کو مسمار کرنے، اور ان کی مزاحمتی تحریک کو دہشت گردی قرار دینے کے لیے بےرحم ریاستی پالیسیاں نافذ کیں۔ میڈیا کو قابو میں رکھ کر عالمی سطح پر اسرائیلی بیانیہ پھیلایا گیا، جبکہ فلسطینی عوام پر کریک ڈاؤن کے لیے غیرمعمولی سیکیورٹی قوانین، گھیراؤ، کرفیو، اور جبری گمشدگیاں عام کر دی گئیں۔

جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز (1948-1994)

جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت نے "اپارتھائیڈ” کے نام پر سیاہ فام آبادی کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ ان پر سخت ریاستی پالیسیاں نافذ کی گئیں، جن کے تحت انہیں مخصوص علاقوں تک محدود کر دیا گیا، تعلیم، ملازمت، اور سیاست میں برابری کے مواقع سے محروم رکھا گیا، اور جو بھی اس نظام کے خلاف آواز اٹھاتا، اسے قید و بند یا جلاوطنی کا سامنا کرنا پڑتا۔ نیلسن منڈیلا سمیت ہزاروں حریت پسندوں کو سالہا سال تک قید میں رکھا گیا تاکہ آزادی کی جدوجہد کو روکا جا سکے۔

پاکستانی ریاست کی سخت گیر پالیسیوں کا ایک اور مظہر حالیہ کریک ڈاؤن ہے، جو بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) اور اس کے رہنماؤں کے خلاف کیا گیا۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کی قیادت میں BYC جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنے والی ایک مزاحمتی تنظیم ہے، جو انصاف کے اصولوں پر مبنی احتجاجی تحریک چلا رہی ہے۔ لیکن اس کے بجائے کہ ریاست ان مظلوموں کی فریاد سنے، اس نے مزید جبر کی راہ اپنائی۔ اس مہینے، جب مہرنگ بلوچ، بیبو بلوچ اور بیبگر بلوچ تین بےگناہ بلوچ شہداء کی لاشوں کے ساتھ انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے، انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ ان نوجوانوں کے حق میں آواز اٹھا رہے تھے، جنہیں پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ جب ان کی رہائی کے لیے سمّی دین بلوچ اور سِگبت اللہ شاہجی نے اور پُرامن احتجاج کے انعقاد کیے، تو ریاست نے انہیں بھی نشانہ بنایا اور قید کر لیا۔ ہہ گرفتاریاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ریاست اپنے جبر کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی آواز کو خاموش کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ بجائے اس کے کہ ان مظلوم خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھا جائے، ان پر مزید ظلم کیا جا رہا ہے۔ BYC کے رہنماؤں پر اس ریاستی جبر کا مقصد واضح ہے: بلوچ عوام کو ان کے جائز حقوق کی جدوجہد سے باز رکھنا، انہیں خوف میں مبتلا کرنا، اور احتجاج کو طاقت کے ذریعے کچلنا۔ مگر تاریخ گواہ ہے کہ جبر سے مزاحمت کو ختم نہیں کیا جا سکتا، بلکہ یہ اسے مزید تقویت دیتا ہے۔

ریاستی جبر اور سچ کی مزاحمت کا تصادم تاریخ کا ایک مستقل باب ہے، جہاں قابض اور آمرانہ حکومتیں ہمیشہ سچ بولنے والوں کو دبانے کے لیے جھوٹے مقدمات، پروپیگنڈے اور طاقت کا استعمال کرتی آئی ہیں۔ جب بھی کسی مظلوم قوم نے اپنی بقا کے لیے آواز بلند کی، ریاستی مشینری نے انہیں دہشت گرد، باغی یا غیرملکی ایجنٹ قرار دے کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ مہاتما گاندھی کی ستیہ گرہ تحریک اس جبر اور سچ کے ٹکراؤ کی ایک کلاسیکی مثال ہے، جہاں برطانوی سامراج نے عدم تشدد پر یقین رکھنے والے ایک عوامی رہنما کو بھی اپنے استعماری اقتدار کے لیے خطرہ سمجھا۔ گاندھی جی نے برطانوی ظلم اور ناانصافی کے خلاف عدم تعاون کی تحریکیں چلائیں، جن میں نمک ستیہ گرہ اور عدم تشدد پر مبنی سول نافرمانی شامل تھیں۔ مگر سامراجی حکومت نے انہیں بار بار قید کیا، سخت قوانین نافذ کیے، اور آزادی کی اس تحریک کو بدنام کرنے کے لیے انہیں باغی اور بغاوت پر اکسانے والا قرار دیا۔ لیکن برطانوی ریاست کی تمام کوششوں کے باوجود، سچائی کی یہ جنگ آخرکار جیت میں تبدیل ہوئی اور ہندوستان نے آزادی حاصل کر لی۔

یہی کہانی جنوبی افریقہ میں دہرائی گئی، جہاں نیلسن منڈیلا نے نسلی امتیاز کے خلاف مزاحمت کی، مگر ریاستی جبر نے ان پر دہشت گردی کے الزامات لگا کر 27 سال کے لیے جیل میں ڈال دیا۔ سفید فام نسل پرست حکومت نے یہ تاثر دیا کہ منڈیلا اور ان کی جماعت، افریقی نیشنل کانگریس (ANC)، ملک میں بدامنی اور دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے، حالانکہ وہ صرف مساوات اور آزادی کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔ ریاست نے میڈیا کو اپنے قابو میں رکھا اور عوام کے ذہنوں میں یہ پروپیگنڈہ بٹھانے کی کوشش کی کہ جو لوگ انصاف کی بات کرتے ہیں، وہ درحقیقت ملک دشمن ہیں۔ لیکن منڈیلا کی رہائی کے بعد، دنیا نے دیکھا کہ جنہیں دہشت گرد کہا جا رہا تھا، وہی دراصل آزادی اور انسانی حقوق کے حقیقی علمبردار تھے۔

امریکہ میں بھی مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی قیادت میں سیاہ فام شہریوں کی جدوجہد کو ریاستی جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے عدم تشدد پر مبنی مزاحمت کے ذریعے شہری حقوق کی جنگ لڑی، لیکن امریکی ریاست اور اس کے خفیہ ادارے، خاص طور پر FBI، انہیں کمیونسٹ، ملک دشمن، اور ریاست کے خلاف سازش کرنے والا قرار دینے میں مصروف رہے۔ ان کے فون ٹیپ کیے گئے، ان کی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، اور آخر کار انہیں قتل کر دیا گیا۔ مگر ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی، اور ان کی تحریک نے امریکہ میں نسلی برابری کے دروازے کھول دیے۔

یہی پالیسی فلسطینی عوام پر بھی مسلط کی گئی، جہاں قابض اسرائیلی ریاست نے آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی۔ جو بھی فلسطینی اپنی سرزمین کے لیے کھڑا ہوا، اسے ریاستی بیانیے کے مطابق دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا گیا یا قید میں ڈال دیا گیا۔ عالمی میڈیا کو قابض ریاست نے اپنے حق میں استعمال کیا، تاکہ دنیا کو یہ باور کرایا جا سکے کہ جو فلسطینی اپنی زمین، شناخت، اور وجود کے لیے لڑ رہے ہیں، وہ درحقیقت دہشت گرد ہیں، جبکہ اصل دہشت گرد قابض اسرائیلی فوج تھی، جو نہتے شہریوں پر گولیاں برسا رہی تھی۔ مگر اس کے باوجود فلسطینی عوام کی مزاحمت کمزور نہیں ہوئی، بلکہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوئی۔

یہی پالیسی آج پاکستان میں بلوچستان کے حوالے سے دہرائی جا رہی ہے، جہاں بلوچ یکجہتی کمیٹی (BYC) کے رہنماؤں کو جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے پر دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر مہرنگ بلوچ، سمّی دین بلوچ، سیگبت اللہ شاہجی، بیبو بلوچ، اور بیبگر بلوچ جیسے رہنما، جو پُرامن احتجاج کے ذریعے انصاف کا مطالبہ کر رہے تھے، انہیں ریاست نے اس طرح نشانہ بنایا جیسے وہ کوئی مجرم ہوں۔ اس پورے معاملے میں ریاستی بیانیہ وہی رہا جو ہمیشہ جابر قوتوں کا رہا ہے, یعنی مظلوموں کو دہشت گرد اور انصاف کی بات کرنے والوں کو باغی بنا کر پیش کیا جائے۔

یہ تمام مثالیں ثابت کرتی ہیں کہ جابر ریاستیں ہمیشہ حق کی آواز کو دبانے کے لیے طاقت، جھوٹ اور پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں، مگر تاریخ نے بار بار دکھایا ہے کہ یہ ہتھکنڈے ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔ وہ لوگ، جنہیں کبھی دہشت گرد کہا جاتا تھا، وقت ثابت کرتا ہے کہ وہ درحقیقت آزادی کے ہیرو تھے، اور وہ تحریکیں، جنہیں ختم کرنے کی کوشش کی گئی، وہی تاریخ کا دھارا بدلنے میں کامیاب ہوئیں۔ ہر ظلم ایک نئی مزاحمت کو جنم دیتا ہے، اور سچائی کو دبانے کی ہر کوشش بالآخر جابر قوتوں کے زوال کا سبب بنتی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

تمہارا شہر

بدھ اپریل 2 , 2025
تحریر: کوہ زاد بلوچزرمبش اردو گہری سوچوں میں گم، میں ہینڈ فون لگائے "مناں ھیالا نی جنگل آں بر مناں مئی واب آں گو رول بِل دے” یہ گانا سن رہا تھا۔ یار، اتفاق تو دیکھیں، جب اپنے خیالات کے انبار کو سائیڈ پر رکھ کر سونے کی طرف متوجہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ