تحریر: مزار بلوچ
زرمبش اردو

یہ تصویر محض ایک لمحہ نہیں بلکہ ایک مکمل کہانی ہے، ایک ایسا المیہ جو ہمارے معاشرے کی ذہنی پسماندگی کو عیاں کرتا ہے۔ ایک کتاب جو روشنی، آگہی اور ترقی کی کنجی تھی، آج اس کا مصرف محض پکوڑوں کو لپیٹنا رہ گیا ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں، بلکہ ایک سوچ کی عکاسی ہے، ایک ایسا رویہ جو ہمیں صدیوں سے زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہے۔یہاں سوال یہ نہیں کہ یہ شخص کس مجبوری میں یہ کام کر رہا ہے، بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر اس نے کبھی اسی کتاب کے لفظوں کو پڑھا ہوتا، اگر اس نے اسی علم کو اپنانے کی کوشش کی ہوتی، تو شاید آج وہ کسی لیبارٹری میں تحقیق کر رہا ہوتا، کسی ادارے میں تعلیم دے رہا ہوتا، یا کسی بہتر مقام پر ہوتا۔ مگر افسوس، اس کے ہاتھ میں ترقی کی کنجی تھی، مگر اس نے اسے پہچانا نہیں۔ یہ منظر ایک بڑی سچائی کی عکاسی کرتا ہے: اکثر لوگوں کے پاس بہتر مستقبل کی چابی ہوتی ہے، مگر وہ اسے کسی اور کام میں لگا دیتے ہیں۔ جیسے اگر آپ کسی فقیر کو سونے کا پیالہ دے دیں، تو وہ اس کی قیمت جانے بغیر اسی میں خیرات مانگتا رہے گا، کیونکہ اس کی سوچ اس حد تک محدود ہو چکی ہے کہ وہ اپنی قسمت بدلنے والے مواقع کو پہچاننے سے قاصر ہے۔ زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے پاس بہتری کی چابی ہوتی ہے، مگر وہ اسے پہچان نہیں پاتے۔ ان کے ہاتھ میں موقع ہوتا ہے، مگر وہ اسے ضائع کر دیتے ہیں۔ ان کے پاس علم کی طاقت ہوتی ہے، مگر وہ اسے غیر ضروری چیزوں میں کھپا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے جمود کا شکار ہو جاتے ہیں، اور وہ اقوام جو کتابوں کو چراغ سمجھنے کے بجائے ان میں کھانے لپیٹتی ہیں، ہمیشہ تاریکی میں بھٹکتی رہتی ہیں۔
یہ تصویر صرف ایک شخص کی محرومی کی کہانی نہیں، بلکہ پورے نظام کی سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔ ایک ایسا نظام جو شعور کو دبانے اور جہالت کو فروغ دینے کے لیے صدیوں سے کام کر رہا ہے۔
اس کہانی کے پس پردہ ایک مکمل نظامی سازش کارفرما ہے، جہاں ریاستیں اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے اعلیٰ ترین کردار ادا کرتی ہیں۔ اپنی حکمرانی کو مستحکم رکھنے کی خاطر وہ پوری قوم کے شعور کو مسخ کر دیتی ہیں، آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیتی ہیں۔ عوام کو حقیقت سے دور رکھنے کے لیے خوف کو ایک مقدس لبادہ پہنا دیا جاتا ہے، جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اور جہالت کو ایسا زنجیر بنا دیا جاتا ہے جو ہمیشہ کے لیے ذہنوں کو جکڑ کر رکھے۔ اس طرح، وہ اپنے تخت کو محفوظ رکھتے ہیں، جبکہ عوام اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے۔ ریاستیں جانتی ہیں کہ اگر عوام کو سائنسی شعور دے دیا جائے، اگر انہیں منطق اور تحقیق کی راہ پر ڈال دیا جائے، تو وہ حکمرانوں کے جھوٹے دعووں کو پہچاننے لگیں گے۔ وہ سوال کریں گے، وہ حقائق کی کھوج لگائیں گے، اور وہ ہر اس چیز کو چیلنج کریں گے جسے مقدس بنا کر ان پر مسلط کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران ہمیشہ مذہب کو ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ وہ ایسے مذہبی پیشوا پیدا کرتے ہیں، انہیں وسائل فراہم کرتے ہیں، انہیں اسٹیٹ میڈیا پر بٹھاتے ہیں، اور انہیں ایک خاص بیانیہ پھیلانے کی ذمہ داری سونپتے ہیں۔ وہ بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ سائنسی سوچ خطرناک ہے، سوال کرنا گناہ ہے، اور تحقیق کرنا ایمان کمزور کرنے کا ذریعہ ہے۔ وہ والدین کو خوفزدہ کرتے ہیں کہ اگر ان کے بچے سائنس پڑھیں گے، اگر وہ منطق کو اپنائیں گے، تو وہ گمراہ ہو جائیں گے، وہ اپنے عقائد پر سوال اٹھائیں گے، اور وہ ان مقدس روایات کو مسترد کر دیں گے جو صدیوں سے ان پر مسلط ہیں۔ یہ ریاستی پالیسی کا حصہ ہوتا ہے کہ ایسے مذہبی استاد پیدا کیے جائیں جو سائنس کو صرف مغربی ایجنڈا قرار دیں، جو لوگوں کو یہ سکھائیں کہ نیوٹن، آئن سٹائن، اور ڈارون کے نظریات شیطانی سازشیں ہیں، اور جو جدید تعلیم کو بے راہ روی کی جڑ قرار دے کر لوگوں کو تاریکی میں رکھنے کا کام کریں۔ وہ عوام کو بتاتے ہیں کہ زمین کے مسائل پر غور مت کرو، صرف آخرت کے بارے میں سوچو۔ وہ لوگوں کو اس بات میں الجھا دیتے ہیں کہ تعلیم اور ترقی سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کون کیا کھا رہا ہے، کس کا لباس کیسا ہے، اور کون کس عقیدے کا پیروکار ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگ حقیقت سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ وہ اپنی غربت، اپنی غلامی، اور اپنی جہالت کو اپنی تقدیر سمجھنے لگتے ہیں۔ وہ سائنسی ترقی کو دیکھنے کے باوجود اسے اپنا دشمن سمجھنے لگتے ہیں۔ انہیں کبھی یہ سمجھ نہیں آتا کہ وہی علم جسے وہ ترک کر رہے ہیں، وہی علم جسے وہ خدائی قوتوں کے خلاف سمجھ رہے ہیں، درحقیقت ان کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ مگر جب حکمران اور مذہبی پیشوا ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر جہالت کا کاروبار چلا رہے ہوں، تو عوام کے پاس یہی رہ جاتا ہے کہ وہ کتابوں کو چکنائی جذب کرنے کے لیے استعمال کریں، اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی سکھائیں کہ سوال مت کرو، تحقیق مت کرو، اور اندھی تقلید کو ہی اپنا ایمان بنا لو۔ یہی وہ خوفناک حقیقت ہے جو ہمیں سمجھنی ہوگی۔ جب تک ریاست مذہب کو ایک ہتھیار بنا کر عوام کی سوچ پر پہرے بٹھاتی رہے گی، جب تک لوگ اپنے ذہنوں کو آزاد کرنے سے ڈرتے رہیں گے، تب تک وہ پکوڑے خریدنے والے لڑکے سے زیادہ کچھ نہیں بن سکیں گے، اور وہ شخص جو آج یہ کتاب پھاڑ کر اس میں پکوڑے لپیٹ رہا ہے، شاید آنے والی نسلوں میں بھی وہی کام دہراتا نظر آئے گا، کیونکہ ہم نے خود کو ان زنجیروں میں جکڑے رکھنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔