کمبر زاہد کے آنسوؤں کا مداوا کون کرے گا؟

تحریر رامین بلوچ
زرمبش اردو

بلوچستان میں جبری گمشدگیاں ایک نہ ختم ہونے والے انسانی المیہ ہیں،جو نہ صرف بنیادی انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین کے سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ایک سیاسی و سماجی حقیقت بھی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے بلوچ سرگرم سیاسی کارکنوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان جبری گمشدگیوں میں نہ صرف بلوچ فرزندوں کو سالوں تک لاپیہ رکھنا شامل ہے بلکہ بعدازں انہیں جعلی اور فرضی مقابلوں میں شہید کردیا جاتا ہے۔ ان گمشدگیوں کے ذریعہ بلوچ قوم کے اندر خوف اور عدم تحفظ کی فضاء پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ انہیں قومی آزادی کی جدوجہد سے باز رکھا جاسکے ۔

ہزاروں جبری گمشدگی کا شکار ہونے والے اس فہرست میں زاہد بلوچ ایک نمایاں نام ہیں، جو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے چیئر مین تھے اور جنھیں گیارہ سال قبل شال سے لاپتہ کردیا گیا تھا۔ زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف اور ان کی بازیابی کے لئے گزشتہ گیارہ سال سے ان کے لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں، جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی، وائس فار مسنگ پرسنز سرفہرست ہیں،مسلسل جدوجہد کررہی ہیں۔ تاہم زاہد بلوچ کے بازیابی کے بجائے گزشتہ دنوں ان کے بھائی شاہ جہان بلوچ کو ریاست کے پرائیویٹ ملیشیاء نے ان کے دکان میں انتہائی بے رحمی سے شہید کردیا
شاہ جہاں بلوچ نہ کسی سیاسی تنظیم سے وابستہ تھے اور نہ ہی کسی احتجاجی عمل میں شریک رہے۔وہ اپنے گھر کے واحد کفیل تھے اور ان کے پوری توجہ اپنی روزگار پر تھی۔ان کے کاندھوں پر زاہد بلوچ کے بچوں کی کفالت اور ان کی تعلیم کے زمہ داری بھی تھی۔ ان کے والد نے شاہ جہان کے شہادت پر شدت غم میں کہا: ”میں اب تین لاشوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا“ زاہد بلوچ کے جبری گمشدگی اور شاہ جہان کے ناگہانی شہادت نے ان کے اہل خانہ کو ناقابل بیان کرب میں مبتلا کردیا۔ (پرسہ) تعزیت پر آئے ہر فرد کی آنکھ اشکبار تھی۔زاہد بلوچ اور شاہجہان کے بچوں کے آنسوان کے گالوں سے بہتے ہوئے زمین پر ٹپک رہے تھے۔ زاہد کے بچے، جو ان کی جبری گمشدگی کے وقت کے بہت چھوٹے تھے، اب باپ کے غم کے ساتھ جینے کے عادی ہوچکے ہیں اور چچا کی شہادت پر ماتم کدہ تھے۔

چند روز قبل زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کے گیارہ سال مکمل ہونے اور شاہجہاں بلوچ کے قتل کے خلاف نال میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے ایک جلسہ منعقد کیا گیا،جس میں مہرنگ بلوچ نے خطاب کیا۔ زاہد بلوچ کے بیٹے کمبر زاہد نے بھی جلسے سے خطاب کیا کمبر زائد کی تقریر ایک فرد کی نہیں، بلکہ ان تمام خاندانوں کی داستان تھی جو برسوں سے اپنے پیاروں کی راہ تک رہے ہیں، مگر انہیں صرف خاموشی، خوف اور ناامیدی کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ وہ کہتے ہیں:”ہمیں گیارہ سال ہوگئے، لیکن ہم نے اپنے باپ کا سایہ تک نہیں دیکھا۔ہمیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟۔ہمارے والد کے بعد، ہمارے چچا شاہجہان ہمارا واحد سہارا تھے۔ جب ہمیں کوئٹہ (شال) سے نال بلایا گیا اور کہاگیاکہخوشخبری ہے، تو ہم سمجھے کہ شاید ہمارے والد بازیاب ہوگئے ہیں،مگر یہاں پہنچے کر معلومہواکہ ہمارا دوسرا سہارا بھی ہم سے چھین لیا گیا“

کمبر زاہد کی تقریر میں اپنے باپ کی گمشدگی اور اپنے چچا شاہجہان کی قتل کا زخم نمایاں ہیں، ایسا زخم جو کھبی نہیں بھرے گا۔ اس کی الفاظ میں احتجاج کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ گیارہ سال گزر گئے،مگر ان کے والد کا کوئی نشان نہیں، کوئی سراغ نہیں، اور جب انہیں "خوشخبری” کے نام پر نال بلایا گیا، تو وہاں مزید غم و اندوہ ان کا منتظر تھا—ان کے چچا کو قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ ریاستی جبر اور بربریت کی ننگی مثال ہے، جہاں کسی کے پیارے کو بازیاب کرنے کی بجائے، ان کے خاندان کو مزید اذیت میں مبتلاء کردیا جاتاہے۔

کمبر زاہد اور ان کے بڑے بھائی اور دیگر اہل خانہ کس کرب اورذہنی اذیت سے گزر رہے ہوں گے، ان کے دکھ و درد بھری خیالات میں یہ ضرور شامل ہوں گے کہ گیارہ سال……………… ایک دہائی سے زیادہ وقت گزر گیا، مگر ہم نے اپنے باپ کا سایہ تک نہیں دیکھا۔ نہ ان کی آواز سنی، نہ ان کی مسکراہٹ دیکھی، نہ ان کے مضبوط ہاتھوں کا لمس محسوس کیا۔ گیارہ سال سے ہم ہر دن یہ امید لیے جی رہے ہیں کہ شاید آج کوئی خبر آئے، شاید آج کوئی کہے کہ وہ لوٹ آئے ہیں، مگر ہر دن ہماری امید مزید بوجھل ہو کر مایوسی میں بدل جاتی ہے۔

ہمارے والد، شاہ جہان بلوچ، ہمیں بچپن میں ہمیشہ سینے سے لگا کر کہتے تھے کہ”’بیٹا، میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں“۔جو ہمیں والد کی غیر موجودگی میں حوصلہ دیتے تھے، جو ہماری ٹوٹی امیدوں کو جوڑنے کی کوشش کرتے تھے، وہ بھی اسی تاریکی میں گم کر دیے گئے جس میں ہمارے والد کو دھکیلا گیا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے باپ کہاں ہیں، کس حال میں ہیں، زندہ ہیں یا کسی گم نام قبر میں دفن کر دیے گئے۔ ہمیں صرف انتظار کا عذاب ملا، اور بے بسی کی گھٹن۔

ہم اس امید میں تھے کہ۔ شاید ہمارا باپ کسی دن لوٹ آئے ، شاید ہمارے ہاتھ پھر سے ان کے ہاتھوں کو تھام سکیں۔لیکن ہمیں والد کی جدائی کے کمی محسوس نہ کرنے والا ہمارا دوسرا سہارا بھی چھین لیا گیا۔اب ہم کس سے فریاد کریں؟ کس کے در پر دستک دیں؟ ہر دروازہ ہمارے لیے بند ہو چکا ہے، ہر راستہ دھندلا گیا ہے۔ ہم نہ اپنے والد کے غم کو بھلا سکتے ہیں، نہ اپنے چچا کی جدائی کو سہہ سکتے ہیں۔

ہماری راتیں ان کی یاد میں روتے گزر جاتی ہیں اور دن امید و مایوسی کے بیچ جھولتے رہتے ہیں۔ ہمیں صرف ایک سوال کا جواب چاہیے: آخر ہمارا قصور کیا تھا؟ کیا اپنے پیاروں کے ساتھ جینے کی خواہش کرنا جرم ہے؟ اگر نہیں، تو پھر ہمارے والد اور چچا کہاں ہیں؟

۔ ہمارے الفاظ چیخ بن کر فضا میں گم ہو جاتے ہیں، مگر سننے والا کوئی نہیں۔ اور ہم……………… ہم آج بھی اس امید پر زندہ ہیں کہ شاید کسی دن دروازہ کھلے، اور ہمارے والد آئے اورکہیں: "بیٹا، میں واپس آ گیاہوں۔”
جبری گمشدگی کا مسئلہ صرف ان گمشدہ افراد تک محدود نہیں، بلکہ ان کے خاندانوں اور پورے سماج پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ وہ مائیں، بہنیں اور بیویاں جو سالوں تک اپنے پیاروں کی راہ تکتی رہتی ہیں، ان کی امید، جدوجہد اور صبر اس ظلم کے خلاف ایک خاموش مزاحمت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ان جبری گمشدگیوں کا مقصد صرف افراد کو غائب کرنا نہیں بلکہ بلوچ بلوچ قومی بیانیے کو مسخ کرنا، آزادی کی تحریک کو سبوتاژ کرنا اور عوام کے اندر خوف کو پھیلانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی جبر قوموں کی جدوجہد کو ختم کر سکتا ہے؟ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جبری گمشدگیاں، فیک انکاؤنٹرز،ریاستی جنگی جرائم اور خوف کے حربے تحریکوں کو کمزوراور ختم نہیں کر سکتے۔ بلوچ قوم نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے،اور وہ اپنی قومی شناخت، اور آزادی کے لیے اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس المیے کا خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب بلوچ قوم کو، آزادی اور خودمختاری کے ساتھ جینے دیا جائے ، اور ان کے سیاسی بیانیے کو دبانے کے بجائے سمجھنے اور سننے کی کوشش کی جائے۔
۔ میشل فوکو Foucault) (Miche اور جارجیو آگیمبین(Giorgio Agamben) جیسے فلسفیوں نے ریاستی جبر اور "ننگی جارحیت کو بے نقاب کرتے ہوئے واضح کیاہے کہ نوآبادیاتی ریاست جبر کو محض براہِ راست تشدد یا طاقت کے ذریعے نافذ نہیں کرتی۔ یہ صرف پولیس یا فوج پر انحصار نہیں کرتی بلکہ تعلیمی نظام، سائنسی علوم، نفسیات، میڈیکل، اور دیگر اداروں کو بھی استعمال کرتی ہے تاکہ افراد کو مخصوص رویوں میں ڈھالا جا سکے۔

اپنی مشہور کتاب and Punish” "Disciplineمیں فوکو بتاتے ہیں کہ ریاست سزا دینے کے طریقے بدل چکی ہے۔ جہاں پہلے عوامی سزائیں (مثلاً پھانسی یا کوڑوں کی سزا)عام تھیں، اب ایک ایسا نظام بنا دیا گیا ہے جس میں لوگوں کو مسلسل نگرانی (Surveillance) میں رکھ کر جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، خفیہ جیلوں میں قید کیاجاتاہے اور نفسیاتی و ذہنی ہراسمنٹ کے ذریعے دبایا جاتاہے۔ نوآبادیاتی ریاست لوگوں کو اس نہج پر لے آتی ہے کہ وہ خود کو ہمیشہ نگرانی میں محسوس کریں۔ تشدد کا مرکز کوئی ایک ادارہ نہیں ہوتا بلکہ اسکول، اسپتال، میڈیا، اور دیگر اداروں میں سرایت کرجاتاہے۔جہاں جبر صرف بندوق اور زنجیروں تک محدود نہیں بلکہ پورے سماجی ڈھانچے میں پھیل جاتا ہے۔

جارجیو آگیمبین ایک اطالوی فلسفی ہیں جو ریاست، اقتدار، اور جبر کے حوالے سے منفرد نظریات رکھتے ہیں۔وہ "ننگی زندگی” (Bare Life) )کے تصور کے ذریعے ریاستی جبر کی نوعیت کو واضح کرتے ہیں۔ان کے مطابق نوآبادیاتی ریاستیں خود کو انسانی قوانین سے بالاترسمجھتی ہیں۔اور شورش یا انسر جنسی، کے نام پر ہر قسم کی قوانین معطل کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔آگیمبین کے مطابق خفیہ حراستی مراکز کے ذریعہ ہر قسم کے قانونی عمل کو معطل کردیا جاتاہے، جس سے ریاست جنگی جرائم کی کھلی چھوٹ مل جاتی ہے۔

ایسی ریاستیں سیاسی کارکنوں کو ایسی ہی زندگی میں دھکیل دیتی ہیں، جہاں و ہ ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم ہو جاتے ہیں اور محض "ننگی زندگی” گزارنے پر مجبور کردیے جاتے ہیں، یعنی زندہ تو ہوتے ہیں لیکن کسی قانونی تحفظ کے بغیر۔۔وہ نازی حراستی کیمپوں اور گوانتانامو بے جیسے مقامات کو ریاستی جبر کی انتہائی شکل قرار دیتے ہیں، جہاں لوگ صرف "ننگی زندگی” میں قید ہو کر دیا جاتاہے۔
اگر ہم آگیمبین اور مشل فوکو کے نظریات کو بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے تناظر میں دیکھیں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ کیسے پاکستانی ریاست بعض افراد کو "ہومو سیکر” homo sacer میں تبدیل کردیتی ہیں وہ فرد جنہیں ماورائے قانون قتل — یا جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر کسی بھی وقت شہید کرسکتی ہے یا غیر معینہ مدت تک خفیہ حراست میں رکھ سکتی ہے۔

بلوچ جبری گمشدہ افراد بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں ریاست "ننگی زندگی” گزارنے پر مجبور کرتی ہے۔ انہیں کسی بھی لمحے غائب کیا جاسکتاہے ہے، ان کی قانونی شناخت کو ختم کیا جاتاہے، انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت اوپن عدالتی ٹرائل کا موقع تک نہیں دیا جاتا۔زاہد بلوچ جنہیں گیارہ سال سے ریاستی اداروں نے لاپتہ کررکھاہے، آج تک کسی عدالت میں پیش نہیں کئے گئے، اور نہ ہی ان کی قانونی موجودگی کی تصدیق کی گئی ہے۔

پاکستانی ریاست ہمیشہ جبری گمشدہ بلوچ سیاسی کارکنوں کو، "غدار” یا "ملک دشمن” قرار دے کر حقائق کو مسخ کرتی ہے، تاکہ انسانی حقوق کے ادارے اور عالمی برادری ان کے حق میں آواز بلند نہ کریں۔جبری گمشدگیاں صرف کسی فرد کی آزادی سلب کرنے کا عمل نہیں بلکہ بلوچ نظریاتی اساس اور قومی بیانیہ کے خلاف ایک منظم حملہ ہے۔ یہ ایک مجرمانہ عمل ہے جس کا مقصد نہ صرف مزاحمتی آوازوں کو خاموش کرنا ہے بلکہ حقیقت کو اس طرح مسخ کرنا ہوتاہے کہ جبر و بربریت کو ہی سچ کا درجہ دے دیا جائے۔

پاکستانی ریاست بلوچ جبری گمشدگیوں کے حوالہ سے ریاست کا اختیار کردہ مکروہ بیانیہ اسی نوعیت کی پالیسی ہے، جس میں متاثرین کو ملک دشمن یا غدار قرار دیا جاتا ہے اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بھی جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک طرف رریاست بلوچ گمشدہ افراد کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے، دوسری طرف انہی افراد پر جھوٹے الزامات لگاکر ایک جعلی بیانیہ گھڑتی ہے۔

یہ عمل دراصل جارج آرویل کے تصورِ "ڈبل تھنک” (Double think) کی یاد دلاتا ہے، جس میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستانی ریاست کی پالیسی میں بھی یہی پہلو نظر آتا ہے: ریاست جبری گمشدہ افراد کے بارے میں کہتاہے کہ وہ "لاپتہ” نہیں بلکہ خود غائب ہو گئے ہیں، بیرون ملک چلے گئے ہیں یا ”مسلح تنظیموں“میں شامل ہو گئے ہیں۔

ہیگل کی جدلیات (Dialectics) کے مطابق، تاریخ غلام اور آقا کے درمیان جدوجہد کی تاریخ ہے۔ بلوچ تحریک بھی اسی فلسفیانہ تناظر میں ایک مسلسل کشمکش کی علامت ہے۔ ایک طرف جابرریاست ہے جو کہتی ہے کہ "بلوچ دہشت گرد ہیں "، اور دوسری طرف وہ مظلوم بلوچ قوم ہے جو اپنے بنیادی انسانی حق،قومی آزادی کے لئے مزاحمت کررہی ہے۔ اس کے ساتھ بلوچ انسانی حقوق کے تنظیمیں جبری گمشدہ افراد کی قانونی شناخت اور بازیابی کے لے احتجاجی عمل کا حصہ ہیں۔

یہاں ژاک دریدا کے فلسفہِ "ڈی کنسٹرکشن” (Deconstruction) کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم ریاست کے بیانیے کو ڈی کنسٹرکٹ کریں، تو ہم دیکھتے ہیں کہ "ملک دشمنی” کا مفہوم دراصل طاقت کے حق میں تشکیل دیا گیا ہے۔ جو ریاست کے جبر پر سوال اٹھائے، وہ دشمن قرار پاتا ہے، اور جو اس جبر کو جائز کہے، وہ محب وطن۔
ریاستی بیانیہ صرف سچائی کو مسخ کرنے کی کوشش نہیں، بلکہ یہ اخلاقی بحران کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ جب ایک ریاست کسی دوسرے قوم کی آزادی سلب کرے، ان کی سیاسی و سماجی اور ملکی اختیارات کو معطل کر کے ان کے زمین پر قبضہ کرے، ان کے وسائل کو غصب کرے اور پھر اسے حب الوطنی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کرے، تو وہ اپنی اخلاقی ساکھ کھو بیٹھتی ہے۔

بلوچ جبری گمشدگیوں پر ریاستی بیانیے کے زمینی حقائق کو سامنے لانا نہ صرف بلوچ عوام کی ذمہ داری ہے بلکہ تمام بین الاقوامی اداروں انسان دوست اور آزادی پسند قوتوں، اور فکری، سماجی، اور سیاسی شعور رکھنے والے افراد کا بھی فرض بنتا ہے۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جھوٹ ہمیشہ عارضی ہوتا، ہے، مگر سچائی ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
جیسے سقراط نے زہر کا پیالہ پی کر بھی سچ کو جھکنے نہ دیا، جیسے چی گویرا نے ظلم کے خلاف مزاحمت کو زندگی کا مقصد بنایا، ویسے ہی بلوچ آزادی کی جدوجہد اورجبری گمشدگیوں کے خلاف آواز بلند کرنا بھی تاریخ میں مزاحمت کی ایک علامت بن چکا ہے۔
ذکر ہورہاتھا کم سن اور معصوم اور نو عمر کمبر زاہد کا ، جو خود اس کرب سے گزر رہے ہیں، ان کا ردعمل ایک نئی حقیقت کو جنم دے رہا ہے —جہاں بلوچ نوجوان، خوف کے سائے سے نکل کر، اپنی اجتماعی تاریخ کو ازسرِ نو لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ مزاحمت صرف سیاسی نہیں بلکہ ثقافتی اور فکری بھی ہے۔ یہ سوال صرف جبری گمشد افراد کا نہیں، بلکہ ریاستی قبضہ کا بھی ہے، جو طاقت اور تشدد کے زریعہ بلوچ قوم کی آواز کو دبانے پر تلا ہوا ہے۔کمبر زاہد کی تقریر میں دکھ، غم اور غصے کے ساتھ ساتھ ایک فکری چیلنج بھی نظر آتا ہے —تاریخ کو کون لکھے گا؟ اگر مظلوم بولنے سے ڈر گئے، تو ظالم کی ت بیانیہ ہی سچ مانی جائے گی۔ لیکن اگر مظلوم بولنے کا فیصلہ کر لیں، تو تاریخ صرف ایک نہیں رہتی، بلکہ وہ مختلف جہتوں میں بٹ جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی مزاحمت محض احتجاجی ریلیوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ بیانیہ سازی ( NarrativeBuilding) (کاایک عمل ہے، جو کثیر الجہتی محاذ پر جاری ہے۔کمبر زاہد کی تقریر اسی مسلسل جدوجہد کی علامت ہے۔ یہ ایک فرد کی فریاد نہیں، بلکہ ایک اجتماعی صدا ہے ۔
کمبر زاہد کے یہ الفاظ بلوچ سیاسی و سماجی تاریخ میں ایک گہرے زخم کی گواہی دیتے ہیں۔ ان کا درد، ان کی جدوجہد، اور ان کی چیخ مجموعی بلوچ سماج کی عکاسی کرتی ہے جہاں ظلم کو قانونی، جبر کو پالیسی، اور خاموشی کو معمول بنا دیا گیا ہے۔ ان کی تقریر صرف ایک خاندان کا نوحہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی دکھ کی نمائندگی ہے —ایسا دکھ جو بلوچ عوام کی اجتماعی یادداشت میں ایک بھیانک حقیقت بن چکا ہے۔یہ تقریر اس ظلم کے خلاف ایک اعلانِ جنگ ہے۔ یہ الفاظ صرف ذاتی صدمے کی نہیں بلکہ شعوری بیداری کی علامت ہیں۔یہ تقریر ایک پوری نسل کی آواز ہے۔ یہ ایک ایسی نسل ہے جو سوال کر رہی ہے، جو جواب مانگ رہی ہے، اور جو اپنے پیاروں کے لیے انصاف چاہتی ہے۔ یہ تقریر تاریخ میں ایک ایسی دستاویز کے طور پر محفوظ رہے گی جو یہ ثابت کرے گی کہ جبر کے باوجود، بلوچ مزاحمت زندہ رہی۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی تاریخ چند دہائیوں پر محیط نہیں۔بلکہ اس کا آغاز اسی وقت ہوگیا تھا جب اس خطے کی سیاسی خودمختاری کو زبردستی دبایا گیا۔ 1948 سے لے کر آج تک، بلوچ قومی تحریک کو ریاستی جبر کے ذریعے ختم کرنے کی پالیسی اپنائی گئی فلسفی جارج آرویل نے کہا تھا:”سب سے مؤثر طریقہ جس سے لوگ اپنا اختیار برقرار رکھتے ہیں، وہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کا شعور دبائے رکھیں، تاکہ وہ یہ بھی نہ سمجھ سکیں کہ ان پر ظلم ہو رہا ہے۔”

کمبر زائد کے آنسو وہ نہیں جو محض آنکھ سے بہہ کر گالوں پر گرتے ہیں اور مٹی میں جذب ہو جاتے ہیں۔ یہ آنسو اس صدی کے اجتماعی ضمیر پر بہنے والے وہ گرم قطرے ہیں جو وقت کی دیوار پر ایسے نشان چھوڑ جاتے ہیں جنہیں نہ بارش دھو سکتی ہے اور نہ تاریخ کی گرد مٹا سکتی ہے۔

بلوچستان کی دھرتی پر جبری گمشدگیوں، شہادتوں اور خاموش آہوں کی کہانی دہائیوں پرانی ہے، لیکن ہر کہانی میں ایک نیا کردار، ایک نیا غم، اور ایک نئی چیخ جنم لیتی ہے۔ کمبر زائد کا غم کسی فرد واحد کا نہیں، یہ ایک پوری نسل کے کرب کا استعارہ ہے
ریاست اپنے آئینی اور قانونی دعووں کے باوجود کمبر زائد جیسے نوجوانوں کے آنسوؤں کا جواب دینے میں ناکام ہے۔ قانون، جو انصاف کی روشنی ہونا چاہیے، یہاں اندھی گلی میں کھڑا راستہ بھول چکا ہے۔ لاپتہ افراد کے اہل خانہ انصاف کی امید لیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں، لیکن انہیں صرف بے حس ضمیروں سے واسطہ پڑتاہے۔
کمبر زائد، جو اپنے والد کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرتا ہے، جس کی چیخیں سوشل میڈیا کے ویران خلا میں گونجتی ہیں، وہ اس ملک کے ہر اس فرد کے ضمیر پر ایک سوالیہ نشان ہے جو آج بھی غیر جانبداری کا بہروپ بھرے بیٹھا ہے۔

سوال یہ نہیں کہ کمبر زائد کو کون انصاف دلائے گا—سوال یہ ہے کہ آیا انصاف کی اس جنگ کو سیاسی مفادات سے بالاتر رکھا جا سکتا ہے؟ سیاسی جماعتیں، جو وقتاً فوقتاً گمشدہ افراد کے مسئلے پر بیانات جاری کرتی ہیں، کیا واقعی ان کے دکھوں کی حقیقی نمائندگی کرتی ہیں؟ یا پھر یہ بھی ایک ایسا ہی نعرہ ہے جو انتخابات کے قریب آ کر بلند ہوتا ہے اور اقتدار ملتے ہی دفن ہو جاتا ہے؟
یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں اپنی اجتماعی بے حسی پر سوال اٹھانا چاہیے۔ کیا ہم نے اپنی روح کو اس قدر مردہ ہونے دیا ہے کہ کمبر زائد جیسے بچوں کے آنسو محض ایک خبر بن کر رہ جائیں؟ کیا ہم نے اپنے مشترکہ درد کو بھی، سیاسی خانوں میں بانٹ دیا ہے؟
کمبر زائد کے آنسو صرف کرب کی علامت نہیں بلکہ ایک سوالیہ نشان بھی ہیں، ایک ایسی آگ جو ناانصافی کے خلاف مزاحمت کا ایندھن بن سکتی ہے۔ کمبر زائد کے آنسوؤں کا مداوا کون کرے گا؟ شاید ریاست نہیں جو خود اخلاقی بحران سے گزرر ہاہے، شاید بلوچ سیاستدان، یا شاید وہی عوام جو آج تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے —اگر یہ آنسو خشک نہ ہوئے، اگر یہ آنسو انصاف میں نہ ڈھلے، تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

بلوچستان کی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے، لیکن زائد بلوچ کی جبری گمشدگی اور ان کے بھائی شاہ جہان بلوچ کی شہادت محض دو نام نہیں، بلکہ وہ المیہ ہے جو نسل در نسل دہرایا جا رہا ہے۔ ان کا جرم کیا تھا؟ کیا وہ اس سرزمین کے مالک تھے؟ کیا ان کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنی قوم کے حقوق کے لیے آواز بلند کر رہے تھے؟
مہذب دنیا میں جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں۔ جنیوا کنونشن کے تحت بھی شہریوں، بچوں، عورتوں اور غیر مسلح افراد کو کسی بھی تنازعے میں تحفظ دیا جاتا ہے۔ مگر یہاں تو بستیوں کو اجاڑا جا رہا ہے، گھروں کو جلا دیا جاتا ہے، اور ہزاروں ماؤں کے لختِ جگر لاپتہ کر دیے گئے ہیں۔ ایسے میں، سوال یہ نہیں کہ پاکستانی ریاست ہمیں انصاف دے گا، وہ تو خود ایک غیر منصفانہ اور غیر انسانی طریقوں سے بلوچ وطن پر قابض
بلکہ سوال عالمی اداروں اور ملکوں سے ہیں کہ کیا ان کے ہاں انصاف کا تصور زندہ بھی ہے یا نہیں؟

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ماہ رنگ، سمی، بیبو بلوچ: جبر کے اندھیروں میں روشنی کی علامت

ہفتہ مارچ 29 , 2025
تحریر رامین بلوچ — پہلاحصہزرمبش اردو بلوچ قومی جدوجہد کی تاریخ بے شمار ناموں سے سرخ ہے، مگر کچھ افراد اپنی جدوجہد،حوصلہ، جرائت، عزم اور قربانیوں سے مزاحمت کی ایسی اساطیر بن جاتے ہیں کہ وہ خود ایک تحریک کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ، سمی دین بلوچ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ