27 مارچ 1948 بلوچستان کا پاکستان سے الحاق

تحریر: مزار بلوچ
زرمبش اردو

بلوچستان کا پاکستان میں الحاق ایک ایسا تاریخی مسئلہ ہے جو آج بھی سیاسی چالبازیوں، فوجی دباؤ اور متنازعہ بیانیوں میں الجھا ہوا ہے۔ 1947 سے قبل بلوچستان کوئی متحدہ ریاست نہیں تھا، بلکہ برٹش بلوچستان، قلات، لسبیلہ، خاران، اور مکران جیسے مختلف انتظامی یونٹوں میں منقسم تھا۔ خان آف قلات، میر احمد یار خان نے 11 اگست 1947 کو آزادی کا اعلان کیا اور برطانوی حکومت نے ابتدا میں قلات کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم بھی کیا، لیکن پاکستان نے قلات کو اپنی اسٹریٹیجک بقاء کے لئے ناگزیر قرار دیا اور اس پر الحاق کے لیے دباؤ بڑھایا۔ جب قلات نے مزاحمت کی، تو پاکستان نے خاران، مکران، اور لسبیلہ کو اپنے ساتھ ملا کر قلات کو مزید تنہا کر دیا، جس کے بعد 27 مارچ 1948 کو خان آف قلات کو زبردستی الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یکم اپریل 1948 کو پاکستانی فوج نے قلات میں داخل ہو کر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا، تاہم بلوچ قوم پرستوں نے اس الحاق کو جبری قبضہ قرار دیا، جو آج تک بلوچستان میں مزاحمتی تحریکوں کا باعث بنتا ہے۔

بلوچستان کی دیگر ریاستوں، جیسے خاران، مکران، اور لسبیلہ میں، حالات مختلف نہیں تھے۔ یہ ریاستیں برطانوی حکومت کے اثر و رسوخ میں تھیں، اور ان کے سربراہ وہ سردار تھے جو برطانیہ کی منظوری سے حکمرانی کرتے تھے۔ ان سرداروں کو برطانوی سامراج کی جانب سے مراعات دی گئی تھیں، جس کے نتیجے میں وہ برطانیہ کے وفادار بن چکے تھے اور اپنی عوام کی مرضی کے بجائے سامراجی پالیسیوں پر عمل پیرا تھے۔ جب 1947 میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا یہ ریاستیں پاکستان میں شامل ہوں گی یا آزاد رہیں گی، تو برطانوی حکومت نے انہی وفادار سرداروں کو استعمال کیا تاکہ ان ریاستوں کا الحاق بغیر کسی عوامی مشاورت کے پاکستان کے ساتھ کروا دیا جائے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں مقامی بلوچ عوام سے کوئی رائے نہیں لی گئی، نہ ہی کوئی ریفرنڈم یا عوامی اجلاس منعقد ہوا۔ بلکہ، ان برطانوی حمایت یافتہ سرداروں نے خفیہ معاہدوں کے تحت 17 مارچ 1948 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے معاہدوں پر دستخط کیے، جبکہ دوسری طرف خان آف قلات، جو ایک آزاد ریاست کے سربراہ تھے، اپنی ریاست کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کوشش کر رہے تھے۔ اس صورتحال میں جب قلات نے اپنے آزاد رہنے کے فیصلے پر قائم رہنے کی کوشش کی، تو پاکستان نے پہلے برطانوی حمایت یافتہ سرداروں کو اپنے ساتھ ملا کر بلوچستان کو تقسیم کیا اور پھر 27 مارچ 1948 کو قلات کو بھی زبردستی ضم کر لیا۔

برطانوی سامراج نے بلوچستان کو ہمیشہ اپنے جیوپولیٹیکل مفادات کے لیے استعمال کیا اور بلوچ قوم پرستی کو کمزور کرنے کے لیے فرقہ وارانہ سازشوں کو فروغ دیا۔ درحقیقت، برطانوی مفادات کے لیے بلوچستان کو پاکستان کے کنٹرول میں رکھنا ضروری تھا، کیونکہ یہ خطہ "گریٹ گیم” کے تناظر میں ایک اہم اسٹریٹیجک مقام رکھتا تھا۔ برطانیہ کو خدشہ تھا کہ اگر بلوچستان ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم رہتا، تو وہ سوویت یونین یا دیگر علاقائی طاقتوں کے زیر اثر آ سکتا تھا، جس سے برطانوی اور مغربی مفادات کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ سوویت یونین کے خلاف سرد جنگ کے دوران برطانیہ اور بعد میں امریکہ کے لیے بلوچستان کی جغرافیائی حیثیت بے حد اہم تھی، کیونکہ یہ ایران، افغانستان اور بحیرہ عرب کے درمیان ایک قدرتی دفاعی دیوار کا کردار ادا کر سکتا تھا۔

برطانوی حکومت نے پاکستان کے اس دعوے کی مکمل حمایت کی کہ بلوچستان کا پاکستان میں انضمام ضروری ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کو بلوچ مزاحمت کو کچلنے کے لیے عسکری اور سفارتی مدد فراہم کی گئی۔ 1958 اور 1973 میں بلوچ بغاوتوں کو ختم کرنے کے لیے پاکستان کو جدید ہتھیار فراہم کیے گئے، تاکہ خطے میں مغربی اثر و رسوخ برقرار رکھا جا سکے۔ مزید برآں، بلوچستان میں "تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی کے تحت فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دی گئی، تاکہ بلوچ قوم پرستی کو کمزور کیا جا سکے۔ سنی اور شیعہ کے درمیان اختلافات کو ابھارا گیا، اور بلوچ ثقافت، زبان، اور تاریخ کو منظم طریقے سے مٹانے کی کوشش کی گئی۔

بلوچستان کا پاکستان میں الحاق آج بھی ایک متنازعہ باب سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہے کہ یہ الحاق قومی وحدت کے لیے ضروری تھا، جب کہ بلوچ قوم پرست اسے جبری قبضہ اور سامراجی توسیع پسندی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ 1948 کے واقعات نہ صرف بلوچستان کی تاریخ بلکہ اس کے سیاسی مستقبل پر بھی گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں، اور سات دہائیوں بعد بھی بلوچستان کا مسئلہ ایک زندہ حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ مغربی طاقتوں، خاص طور پر برطانیہ اور امریکہ کی دلچسپی آج بھی بلوچستان میں برقرار ہے، کیونکہ یہ خطہ عالمی جغرافیائی سیاست میں اپنی اہمیت کھو چکا ہے نہ ہی اس کے قدرتی وسائل کی اہمیت کم ہوئی ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ستائس مارچ کی مناسبت سے دشمن پر 72 منظم حملے: 32 اہلکار ہلاک، 40 سے زائد زخمی ۔ براس

ہفتہ مارچ 29 , 2025
بلوچ راجی آجوئی سنگر (براس) کے ترجمان بلوچ خان نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے بلوچستان بھر میں ایک منظم اور مربوط عسکری مہم کے دوران کل 72 کارروائیاں انجام دیں۔ یہ کارروائیاں قابض پاکستانی فوج، نیم فوجی دستوں، خفیہ اداروں، ریاستی حمایت یافتہ […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ