کوہ سلیمان کی پکار

تحریر:- نوہان بلوچ
زرمبش اردو

کوہ سلیمان ایک وسیع و عریض پہاڑی سلسلہ جو راجن پور، ڈیرہ بگٹی اور ڈیرہ غازی خان سے شروع ہوتا ہے اور افغانستان میں اختتام پزیر ہوتا ہے۔ یہ انتہائی وسیع و عریض علاقہ جہاں پر لاکھوں کی تعداد میں بلوچ قبائل بستے ہیں جن کو قابض پاکستان نے انگریز کی Divide & Rule کی پالیسی کو اب تک لاگو کر کے بلوچ قوم کی غلامی کو مضبوط بنایا۔ اب کوہ سلیمان کی بلوچ عوام اور اس کے جغرافیائی علاقہ جات کے بارے میں وضاحت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ویسے تو ہم نے ایک نعرہ سنا ہی ہے "ڈیرہ غازی خان تا مکران بلوچستان بلوچستان” یہ نعرہ ہمیشہ سے ہی لگا ہے کیونکہ برٹش پارٹیشن کے بعد بلوچستان کے کئی علاقے پنجاب اور سندھ میں بزور طاقت شامل کیے گئے۔ ان علاقوں میں تونسہ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، فاضل پور، جام پور جو اب بھی پنجاب میں گردانے جاتے ہیں ان علاقوں کے علاوہ کوہ سلیمان اور کوہستان مری کی جغرافیاء دیکھیں تو کوہلو، چمالنگ، دکی، بارکھان، رکنی، راڑہ شم، فورٹمنرو، سخی سرور، ڈیرہ اسمعیل خان مشہور علاقے ہیں۔

ویسے تو کوہ سلیمان کی ہمیشہ سے آزادی کی پکار رہی ہے اور یہ پکار 2012 سے بلوچ قومی تنظیموں کو سنائی دیتی ہے اور اسی پکار کے بر عکس آخر کار 2024 میں تنظیمی سنگت کوہ سلیمان پہنچتے ہیں تاکہ کوہ سلیمان پر اپنا خون نچھاور کریں تاکہ اس تحریک آزادی کو مزید طول ملے اور کوہ سلیمان جو کوہستان مری سے لیکر ڈیرہ جات کے علاقے تک ایک وسیع و عریض علاقہ کو شہیدوں کے خون سے آباد اور غلامی سے نجات دلاسکیں۔

شروعات میں بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچار کوہ سلیمان اور کوہستان مری پہنچتے ہیں تو بلوچ قوم کی بزگی اور غلامی کو دیکھ کے دنگ رہ جاتے ہیں۔ یہاں کے بلوچ عوام غلامی کیساتھ ساتھ پورے بلوچستان کی حالیہ تحریک سے کٹ ہیں کیونکہ 2013 کے بعد ان علاقہ جات میں کوئی مسلح تنظیم نہیں رہی۔ یہاں چوری، ڈکیتی، قبائل و خاندانی دشمنی، لج کے مسائل عروج پر تھے۔ قابض ریاست نے ان علاقہ جات کا ایسا حال کر رکھا تھا کہ یہ بلوچ عوام چاہ کر بھی متحد نہ ہو سکیں۔ 2013 سے پہلے بھی ان علاقہ جات میں سیاسی و شعوری کاموں میں کمی کی بنیاد پر مسلح تنظیمیں رہیں لیکن پورے ریجن کو یکجا نہ کر سکیں، نہ ہی پورے ریجن میں مسلح کاروائیاں کر سکیں اور نہ ہی دیگر بلوچستان کی طرح بلوچ قومی تحریک کو کوہستان مری یا کوہ سلیمان میں کہیں ایک جگہ منظم کر سکیں۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے۔

ان علاقہ جات میں بلوچ قوم کے مشہور قبائل بستے ہیں جن میں مری، بگٹی، کھیتران، بزدار، لغاری، کھوسہ، گورچانی اور کئی چھوٹے قبیلے بستے ہیں۔ 1920 سے پہلے ان قبائل کے مشترکہ لشکر تھے جو برٹش سرکار سے چھاپہ مار جنگیں کرتے تھے اور سالا سال اپنے علاقوں کی حدود کی رکھوالی کرتے تھے۔ لیکن یہ لشکر آخری جنگ لڑنے کیلئے ٹالپر کی کمک کیلئےسندھ میں کلہوڑو کے خلاف نکلے۔ جنگ تو جیت لی مگر لشکر کے زیادہ تر جنگجو واپس نہ آئے اور یہ اتحادی لشکر یہیں پر بکھر گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بھی برٹش سرکار کی کوئی” تقسیم اور حکمرانی کرو” چال ہو تو اس کے بعد یہ قبائل آپس میں شیر وشکر نہ ہو پائے البتہ ایک دوسرے سے اتنے دور چلے گئے کہ جہاں سے واپسی صرف بلوچ قومی تحریک سے ہی ممکن ہو۔

تو 2024 میں سب سے پہلے براس کے سرمچاروں نے یہاں کی بلوچ عوام کو سیاسی و شعوری آگاہی دی اور بلوچ قومی تحریک کے بارے میں آگاہ کیا اور عوام کو اپنا کردار ادا کرنے اور چوری، ڈکیتی، آپسی قبائلی جنگ نہ کرنے کی تلقین کی۔ جس سے چوری ڈکیتی کی وارداتیں تقریباًختم ہوئیں اور کافی حد تک آپس کی جنگیں بند ہوئیں۔ یہ ایسا قبائلی علاقہ ہے جہاں پر ایک چھوٹی سے چھوٹی بات پر قبائل اپنی قیمتیں جانیں گنوا دیتے تھے اور ریاستی سیاست اور ریاستی مشنری تھی ہی اس لئے کہ ان معاملات کو ہوا دے سکے اور ابھی تک دے رہی ہے۔ جس کی مثال ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ سرمچار شعوری آگاہی دینے کیلئے عام آبادی میں گئے تو ایک ہفتے بعد وہاں ایف سی کرنل پہنچا اور لوگوں سے سرمچاروں کے بارے میں سوالات کئے تو علاقے کے ایک بزرگ شخص نے سادگی سے بیان کہ سرمچار جب سے آئے ہیں ہمارے علاقے میں امن آگیا ہے چوری، ڈکیتی ختم ہو چکی ہے تو اس کرنل نے یہی جواب دیا کہ ٹھیک ہے اب دیکھو کیسے چوریاں ہوتی ہیں اسی رات کو 4۔ 5 چوریاں ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ ریاست نے اپنی سیاسی مشتریوں کے زریعے ان بلوچ عوام کو مزید بزگ بنایا۔ یہ ایک قبائلی علاقہ ہے تو یہاں ریاستی فوج نے عوام کو کافی حد تک ڈائریکٹ ہٹ نہیں کیا لیکن سرکاری گماشتے بنائے جو بلوچ عوام کو روندنے کیساتھ ساتھ دوسرے قبائل سے دور رکھنے میں کامیاب ہوئے۔ جیسا کہ سردار محبت خان بجارانی، سردارچنگیزمری، سردار عبدالرحمن کھیتران، سرفراز بگٹی، سردار اویس لغاری، سردار فاروق بزدار اور ان کے علاوہ ہر گاؤں میں ایک وڈیرہ بنایا گیا کہ بلوچ عوام کو مزید محکومی و مظلومی میں دھکیلا جا سکے۔

علاوہ ازیں اس ریجن میں تعلیم کا نظام پنپنے ہی نہیں دیا گیا کہ شاید یہ پڑھ لکھ کر مکران کی طرح شعور یافتہ نہ ہو جائیں اور اگر کسی نے کچھ تعلیم حاصل بھی کی تو اس کو ان سرکاری گماشتوں کے پیچھے لگایا گیا کہ شاید چند اسکیل کی نوکری لی جائے۔ حالانکہ ان علاقہ جات میں اعلیٰ عہدوں پر تمام پنجابی فائز ہیں کیونکہ پنجاب بہت نزدیک ہے اور یہ پنجابی افسران ریاستی جبر و قبضہ کو مزید تقویت دیتے ہیں اور یہاں سے لوٹ کھسوٹ کر پنجاب کی معیشت کو بڑھاتے ہیں۔

پنجاب کا ایک ہی گیٹ وے ہے جو کوہ سلیمان کے پہاڑ کو چیر کے گزرتا ہے اس کے علاوہ بلوچستان میں داخل ہونے کیلئے یا تو سندھ سے براستہ کراچی/سکھر یا تو خیبرپختونخواہ براستہ ژوپ ہے تو ریاست کیلئے بلوچستان داخل ہونے اور بلوچستان کی قیمتی معدنیات لوٹنے کا تقریباً واحد راستہ کوہ سلیمان ہے۔ کوہ سلیمان ہی وہ پہاڑ ہے جہاں سے دنیا کے سب سے بڑے ایٹمی و نیوکلیائی زخائر موجود ہیں جن کو قابض ریاست دہائیوں سے لوٹ رہی ہے اور وہاں کی آبادی میں نیوکلیئر ویسٹ پھینک کر کینسر جیسے موزی مرض کو پھیلا رہی ہے۔

اب یہ بلوچ آزادی پسند تنطیموں خصوصاً براس اور بلوچ قوم کے ہاتھ میں کہ کوہ سلیمان کی اس پکار پر لبیک کہیں جو دہائیوں سے اپنے جانباز نوجوانوں کو پکار رہی ہے۔ کوہ سلیمان کی یہ پکار اس وطن پر مرنے والے سر بازوں نے تو سن لی اور ابھی تک 2سرمچار جام شہادت نوش فرما چکے ہیں لیکن اس ریجن کی بلوچ عوام کی لبیک کہنے پر کوہ سلیمان سے کوہستان مری تک یہ دھرتی سکھ کا سانس لے گی اور قابض ریاست کو آخری ٹھوکر مارکر مکمل آزاد ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

شال: بلوچ یکجہتی کمیٹی کی ریلی پر پولیس کا دھاوا، لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ

جمعہ مارچ 21 , 2025
شال: منیر احمد روڈ پر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے جاری احتجاجی ریلی پر پولیس نے دھاوا بول دیا۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی، جس کے نتیجے میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ذرائع کے مطابق […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ