بلوچ عورت انقلاب کی علامت، آٹھ مارچ کے تناظر میں

تحریر: رامین بلوچ — آخری حصہ زرمبش اردو

بلوچ عورت کسی بھی سماج میں صرف حیاتیاتی فرق کی بنیاد پر کمتر نہیں ہو سکتی۔ اگر الجزائر، کردستان، ویتنام اور کیوبا کی عورتیں اپنے انقلاب کی قیادت کر سکتی ہیں، اگر وہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ لڑ سکتی ہیں، تو بلوچ عورت کیوں نہیں؟ وہ کیوں اس غلامی کو قبول کرے جسے نوآبادیاتی ریاست اور مذہبی اجارہ داریت نے اس پر مسلط کیا ہے؟
یہ وقت ہے کہ بلوچ عورت اپنی تاریخ، اپنی جدوجہد اور اپنی آزادی کے لیے ایک نئے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہو۔ وہ مائیں، بہنیں، بیٹیاں جو آج میدان میں ہیں، وہ آنے والے کل کے سورج کی بشارت دے رہی ہیں۔ ان کے قدموں کی گونج صرف بلوچستان نہیں، بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک پیغام ہے۔

یہ جنگ صرف زمین کی نہیں، یہ شناخت کی جنگ ہے، یہ وجود کی جنگ ہے، یہ اس خواب کی جنگ ہے جس میں بلوچ عورت اور مرد برابر کے شریک ہیں — جہاں کوئی سامراجی قوت، کوئی مذہبی فتوٰی، کوئی ریاستی جبر ان کے آدرش کو زنجیر نہیں کر سکتا۔
بلوچ سماج کی تہذیبی بنیادیں ایک ایسے فلسفے پر استوار ہیں، جو ازل سے عورت کو محض ایک فرد نہیں، بلکہ معاشرتی ڈھانچے کا ایک ناگزیر ستون تصور کرتا ہے۔ صدیوں سے بلوچ عورت کو سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات میں وہ حیثیت حاصل رہی ہے، جو دیگر معاشروں میں ایک خواب سمجھی جاتی ہے۔ نوآبادیاتی جبر اور سامراجی چالاکیوں نے اگرچہ اس خودمختاری کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن بلوچ عورت کی بیداری اور مزاحمت کی قوت کو مکمل طور پر مٹایا نہ جا سکا۔

آج کی بلوچ عورت نہ صرف اپنی تاریخی شناخت کو بحال کرنے کے لیے کوشاں ہے، بلکہ وہ مزاحمت کے اس تسلسل کو ایک نئے شعور میں ڈھال رہی ہے۔ وہ اب علمی، ادبی، سیاسی، تکنیکی اور مسلح محاذوں پر صف آرا ہے جدید دنیا میں مزاحمت صرف میدانِ جنگ یا احتجاجی کیمپوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب یہ ڈیجیٹل محاذ پر بھی پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچ عورت، اب سوشل میڈیا جیسے سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز کو بھی اپنی آواز کا ہتھیار بنا چکی ہے۔

یہ وہ محاذ ہے جہاں وہاپنے قومی بیانیے کو خود لکھ رہی ہے، اپنے جبری گمشدہ بھائیوں، بیٹوں اور شوہروں کی کہانیاں مرتب کر رہی ہے، اور ان المیوں کو تاریخ کے اوراق میں محفوظ کر رہی ہے جنہیں طاقتور قوتیں دبانے کی کوشش کرتی ہیں۔یہ ڈیجیٹل جدوجہد محض اطلاعات کی ترسیل نہیں، بلکہ شعور کی بیداری کا عمل ہے۔

یہ سوشل میڈیا محض ایک تکنیکی سہولت نہیں، بلکہ یہ ایک نظریاتی میدان بھی ہے،۔ وہ ٹرینڈز، تحریروں، تصویروں اور ویڈیوز کے ذریعے ایک ایسی تاریخ رقم کر رہی ہے جسے کوئی مٹانے کی طاقت نہیں رکھتا۔سیہ ڈیجیٹل مزاحمت ثابت کرتی ہے کہ بلوچ عورت کی جدوجہد کسی مخصوص دائرے تک محدود نہیں، بلکہ جہاں بھی ظلم، جبر اور ناانصافی ہوگی، وہاں وہ اپنی آواز کو ایک ناقابلِ تسخیر قوت کے طور پر منوائے گی—چاہے وہ گلیوں میں ہو، احتجاجی کیمپوں میں، یا پھر سوشل میڈیا کے ڈیجیٹل میدان میں۔

بلوچ عورت کا مدافعانہ کردار کسی عارضی یا فوری ردِ عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک گہرے تاریخی، سماجی اور ثقافتی تسلسل کا مظہر ہے، جس کی جڑیں مہر گڑھ کی تہذیب سے لے کر جدید بلوچ نیشنلزم تک پیوستہ ہیں۔ تاریخ کے اس طویل اور پیچیدہ سفر میں بلوچ عورت نہ صرف ایک متحرک سماجی عنصر رہی ہے بلکہ وہ مزاحمت، خودمختاری اور اجتماعی شعور کی مجسم علامت بھی ہے۔

مہر گڑھ، جو انسانی تمدن کے اولین مراکز میں شمار ہوتا ہے، ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتا ہے کہ بلوچ سرزمین پر عورت کا کردار ابتدا ہی سے تخلیقی، پیداواری اور تمدنی تشکیل میں ایک بنیادی اکائی کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس تہذیب میں بلوچ عورت محض خاندان اور گھر تک محدود نہ تھی بلکہ کھیتی باڑی، دستکاری، اور معیشت کے مختلف شعبوں میں مرد کے شانہ بشانہ سرگرم عمل تھی۔ اس کے ہاتھوں میں نہ صرف زندگی کی تخلیق تھی بلکہ وہ تمدن کے تسلسل کی ضامن بھی تھی۔ یہ حقیقت ہمیں اس مفروضے سے آزاد کرتی ہے کہ بلوچ عورت کی مزاحمتی حیثیت کسی آج کی پیداوار ہے؛ بلکہ یہ اس کی تاریخی جبلّت اور اجتماعی وراثت کا تسلسل ہے۔

بلوچ عورت کی مزاحمتی روح نہ صرف مہر گڑھ کی تہذیب سے آشکار ہوتی ہے بلکہ ہمیں یہ تاریخی ارتقا بلوچ اجتماعی شعور میں مسلسل متحرک نظر آتا ہے۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں، جب بھی قومی وقار، خودمختاری اور اجتماعی شناخت پر کوئی ضرب لگی، بلوچ عورت نے مزاحمت کو اپنی تقدیر کا حصہ بنایا۔ اس کی مزاحمت محض کسی انفرادی غم و غصے کا اظہار نہیں بلکہ اجتماعی بقا اور قومی خودمختاری کی جہد کا ایک استعارہ بن چکی ہے۔

یہی مزاحمتی روح آج کے بلوچ نیشنلزم میں بھی واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے، جہاں بلوچ عورت سیاسی میدان، مزاحمتی تحریکوں اور فکری بیانیے میں ایک ناقابلِ فراموش قوت کے طور پر موجود ہے۔ اس کا یہ کردار کسی وقتی ابال یا محض ردِ عمل کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کی تاریخ، اس کی ثقافت اور اس کے قومی تشخص کی منطقی توسیع ہے۔ بلوچ عورت کی یہ حیثیت نہ صرف ماضی کے ساتھ ایک فکری و عملی تسلسل کو جوڑتی ہے بلکہ
یہ اس کے مستقبل کی تشکیل میں بھی ایک کلیدی عنصر کے طور پر کام کرتی ہے۔
یوں، بلوچ عورت کا مدافعانہ کردار درحقیقت ایک فلسفیانہ مظہر ہے جو اس کی تاریخ، ثقافت اور اجتماعی وجود کی بقاء کی علامت کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ محض ایک ضرورت نہیں، مقصد ہے، بلکہ اس کی ہستی اور اس کے قومی شعور کا وہ ناگزیر زاویہ ہے جس کے بغیر بلوچ قومی بیانیہ ادھورا رہے گا۔

بلوچ عورت کی موجودہ تحریکیں اس امر کا مظہر ہیں کہ تاریخ کی تلچھٹ میں دفن نوآبادیاتی جبر اور جغرافیائی استحصال کے باوجود، وہ نہ صرف اپنی شناخت کی بازیابی میں مصروفِ عمل ہے بلکہ اپنے اسلاف کے فکری ورثے کو بھی نئی معنویت عطا کر رہی ہے۔ اس کی مزاحمت محض ایک انقلابی لہر نہیں بلکہ ایک مسلسل جاری رہنے والا فکری، سماجی اور سیاسی عمل ہے، جو طاقت کے مروجہ ڈھانچوں کو چیلنج کر کے ایک متبادل بیانیہ تراش رہا ہے۔

یہ بغاوت نہیں، بلکہ وجود کی بقا کی جنگ ہے — ایک ایسی جنگ جو فرد کی نہیں، بلکہ ایک پوری قوم کی اجتماعی شناخت اور آزادی کی متلاشی ہے۔ یہ صرف نعرہ بازی یا وقتی احتجاج نہیں بلکہ ایک فکری تحریک ہے جو جبر کے خلاف نہ صرف شعوری مزاحمت کی علامت ہے بلکہ اس تاریخی جمود کو بھی توڑنے کی سعی کر رہی ہے جو صدیوں سے بلوچ سماجی ڈھانچوں پر قابض ہے۔

بلوچ عورت کا یہ احتجاج ایک کرب انگیز تاریخ کی کوکھ سے پھوٹنے والا وہ الاؤ ہے جس کی آنچ محض نوآبادیاتی طاقتوں کو ہی نہیں بلکہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑ رہی ہے۔ اس کا ہر قدم، ہر صدا، اور ہر تحریر اس بات کی گواہ ہے کہ بلوچ اپنی مقدر اور مسقبل کی مالک خود ہے اور اپنے سماجی، سیاسی، فکری اور آزادی کے افق پر ابھرنے کے لیے ہر قیمت ادا کرنے کو تیار ہے۔

یہ محض ایک داستان نہیں بلکہ ایک مزاحمتی تسلسل ہے — ایک ایسا تسلسل جو تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ زندہ رہے گا، اور جو ہر اس آواز کو تقویت دے گا جو ظلم کے خلاف اٹھتی ہے، ہر اس سوچ کو توانائی دے گا جو برابری کی متلاشی ہے، اور ہر اس تحریک کو سمت دے گا جو آزادی کی خواہاں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

مقبوضہ بلوچستان میں تحریک آزادی کی بڑھتی طاقت اور عوامی حمایت سے قابض ریاست پاکستان حواس باختہ ہوگئی ہے۔ رحیم بلوچ ایڈووکیٹ

جمعرات مارچ 20 , 2025
‏بلوچ آزادی پسند رہنما رحیم بلوچ ایڈووکیٹ نے اپنے سوشل میڈیا ایکس پر ٹویٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقوق انسانی کے معروف کارکن بیبرگ بلوچ، اس کے بھائی ڈاکٹر حمل بلوچ اور بولان میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر واجہ الیاس بلوچ سمیت درجنوں بلوچوں […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ