بلوچ عورت انقلاب کی علامت آٹھ مارچ کے تناظر میں

تحریر: رامین بلوچ — تیسرا حصہ

یہ وہی جذبہ ہے جو تاریخ کو بدل دیتا ہے، جو مزاحمت کو فتح میں ڈھال دیتا ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ نوآبادیاتی ظلم چاہے جتنا بھی شدید ہو، وہ ایک ماں کے جذبے کو شکست نہیں دے سکتا۔ لمہ یاسمین جان کی قربانی نے ہمیں یہ سکھایا کہ مزاحمت کا سفر طویل ہو سکتا ہے، کھٹن ہو سکتا ہے، مگر جب تک ایسی مائیں زندہ ہیں، جب تک ایسی بیٹے میدان میں ہیں، تب تک یہ جدوجہد کبھی ختم نہیں ہوگی۔ آزادی کی جستجو میں جب تک ظلم باقی ہے، تب تک مزاحمت زندہ رہے گی، اور جہاں مزاحمت ہو، وہاں عورت ہمیشہ اس کے مرکز میں کھڑی ہوگی—اپنی پوری عظمت، بصیرت، اور جرات کے ساتھ۔

بلوچ تاریخ میں وفاداری، غیرت، اور قربانی کے ایسے بے شمار قصے ہیں جو نسل در نسل کہانیوں، رزمیہ گیتوں، اور لوگ روایات کی صورت میں زندہ ہیں۔ ان میں دودا اور بالاچ کی کہانی ایک درخشاں مثال ہے، جہاں ماں کا کردار نہ صرف محبت و شفقت کا استعارہ ہے بلکہ غیرت و اصول کی ایک بے نظیر علامت بھی ہے۔ ماں، جو ہمیشہ سے محبت اور مامتا کی علامت سمجھی جاتی ہے، جب غیرت اور اصولوں کی بات آتی ہے تو وہ کسی بھی کمزوری کو برداشت نہیں کرتی۔ دودا کی ماں اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہے: "بیٹے! جو جوانمرد کسی کو پناہ دیتے ہیں، وہ دن کے وقت نیند کی مدہوشی میں نہیں سوتے۔ میں نے تجھے نو ماہ اپنی کوکھ میں رکھا، اپنی ہڈیوں کا رس پلا کر تجھے پروان چڑھایا، اور جب تو اس دنیا میں آیا، تو نے میرا دودھ پیا۔ آج اگر تُو اپنے باہوٹ، یعنی سمی کے چرائے گئے مویشی واپس نہ لایا تو میں قیامت تک تجھے اپنا دودھ حلال نہیں کروں گی۔

بلوچ تاریخ میں کچھ نام ایسے ہیں جو وقت کی دھول میں کھو جانے کے بجائے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید روشن ہوتے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک نام حانی کا ہے، جو محض ایک عورت نہیں بلکہ صبر، وفا، اور استقامت کی ایسی علامت ہے جس کی مثال دنیا کی کسی بھی لوگ روایت میں کم ہی ملتی ہے۔
حانی کی شخصیت محض ایک داستانی کردار نہیں، بلکہ بلوچ روایت میں وہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی روشنی صدیوں سے دلوں کو منور کرتی آئی ہے۔ اس کا وجود عورت کے روایتی تصور سے کہیں آگے نکل کر انسانی عظمت اور خودداری کا ایک ایسا استعارہ بن جاتا ہے جس میں محبت قربانی کے بغیر ادھوری ہے، اور وفاداری آزمائش کے بغیر بے معنی۔

جب تاریخ اس کے فیصلے کو دیکھتی ہے، تو یہ ایک عام عورت کا فیصلہ نہیں لگتا، بلکہ گویا تقدیر نے اس کے ذریعے بلوچ سماج کو جرات، صبر، اور خودداری کا ایک ایسا درس دیا ہے جو نسلوں تک زندہ رہے گا۔ اس کی خاموشی ایک ایسی للکار تھی جس نے بلوچ سماج کے بنیادی اصولوں کو مزید گہرا کر دیا، اور اس کی قربانی نے محبت کو محض جذباتی وابستگی سے نکال کر ایک فکری اور فلسفیانہ سطح پر لا کھڑا کیا۔

حانی کا کردار یہ سکھاتا ہے کہ محبت محض وصل کا نام نہیں، بلکہ بعض اوقات قربانی میں ہی وہ امر ہو جاتی ہے۔ وفاداری صرف ساتھ نبھانے میں نہیں، بلکہ اصولوں پر ثابت قدم رہنے میں بھی مضمر ہوتی ہے۔ اس کی داستان نہ صرف عورت کی عظمت کا ایک روشن باب ہے بلکہ یہ اس قوم کے اجتماعی شعور کی بھی عکاسی کرتی ہے، جہاں غیرت، خودداری اور صبر کو اعلیٰ انسانی اقدار میں شمار کیا جاتا ہے۔
بلوچ عورت محض گھر کی زینت نہیں بلکہ وہ تاریخ کے اس ورثے کا ناقابلِ انکار حصہ ہے، جو جرات، استقامت اور مزاحمت سے عبارت ہے۔ وہ نہ صرف خاندان اور ثقافت کی محافظ ہے بلکہ سماجی اور سیاسی میدان میں بھی اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ اس کی جدوجہد محض ذاتی یا نسوانی مسائل تک محدود نہیں، بلکہ وہ ایک وسیع تر قومی و اجتماعی شعور کی حامل ہے، جہاں عزت، غیرت، اور حق کے لیے آواز بلند کرنا اس کا فطری حق اور تاریخی ورثہ ہے۔

یہی مزاحمتی روح ہے جو ہمیں تاریخ کے مختلف ادوار میں نظر آتی ہے —چاہے وہ فدائیانہ قربانیاں ہوں، جہاں بلوچ عورت نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل میں قدم رکھا، یا پھر وہ ماں، بہن، اور بیٹی ہو جو احتجاجی کیمپوں میں ریاستی جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہے۔ وہ گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے اپنی آواز بلند کرتی ہے، اپنے پیاروں کے لیے انصاف کی طلبگار ہے، اور اپنے قومی وجود کے خلاف ہونے والے ہر ظلم کے سامنے ایک دیوار کی طرح کھڑی ہے۔

یہ مزاحمت محض وقتی نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد کا تسلسل ہے، جو بلوچ تاریخ کے بنیادی اصولوں سے جُڑی ہوئی ہے۔ بلوچ عورت کی اس جرات کو محض جذباتی یا وقتی ردِ عمل نہیں کہا جا سکتا؛ یہ ایک نظریاتی استقامت اور فکری پختگی کا مظہر ہے، جہاں خاموشی بھی ایک احتجاج بن جاتی ہے اور صبر بھی مزاحمت کی علامت۔
یہی وجہ ہے کہ بلوچ عورت کی جدوجہد کو کسی ایک خاص زمانے یا تحریک تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اس کی صدیوں پر محیط مزاحمتی تاریخ کا تسلسل ہے، جو اسے صرف ایک مظلوم ہستی کے طور پر نہیں، بلکہ تاریخ کی ایک متحرک قوت کے طور پر سامنے لاتا ہے۔ وہ آج بھی اسی غیر متزلزل عزم کے ساتھ اپنے حق، اپنی شناخت اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، اور جب تک مزاحمت کا جذبہ زندہ ہے، بلوچ عورت تاریخ کے ہر صفحے پر اپنی جرات کی مہر ثبت کرتی رہے گی۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب بلوچ عورت اپنی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیں، تو اسے ریاستی ایجنٹوں اور مذہبی ٹھیکداروں کی طرف سے تنقید کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ یہی عورت اگر کٹھ پتلی اسمبلیوں میں ریاست کے بیانیے کو فروغ دے تو "قابل قبول” لیکن اگر وہ سڑک پر نکل کر جبری گمشدگیوں اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرے تو "ناقابل قبول”؟ یہ وہ دوہرا معیار ہے جو بلوچ عورت کو صرف اس وقت تسلیم کرتا ہے جب وہ غلامی کو قبول کرے، لیکن جب وہ اپنے حقوق کے لیے میدان میں اترتی ہے تو اسے سماجی روایات، مذہبی تشریحات اور قومی مفاد کے نام پر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

بلوچ عورت کو نہ کمزور کہا جا سکتا ہے اور نہ ہی بے حوصلہ، کیونکہ اس کی مزاحمت اس کے وجود میں ایک ازلی حقیقت کے طور پر موجود ہے۔ جو نسل در نسل اس کے خون میں رچا بسا ہے۔ یہ مزاحمت اس کی زمین کی مٹی میں ہے، اس کی روایات میں سانس لیتی ہے، اور اس کے قومی تشخص کی پہچان ہے۔

وہ ظلم کے خلاف صرف آواز بلند نہیں کرتی بلکہ اس کے خلاف سینہ سپر ہو کر اپنی غیرت اور وجود کا اثبات بھی کرتی ہے۔ اس کا احتجاج محض ایک مطالبہ نہیں، بلکہ اس کی بیداری کا ثبوت ہے، جو ہر دور میں جبر کی قوتوں کے لیے ایک ناقابلِ تسخیر چٹان ثابت ہوا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے حق کے لیے لڑتی ہے، بلکہ اپنی قوم کی آزادی، اجتماعی انصاف، انسانی حقوق، اور اپنی شناخت کی بقا کے لیے بھی میدان میں کھڑی
رہتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں اسے خاموش کرانے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔ نہ تلوار کی دھار اس کی آواز کو کاٹ سکی، نہ زنجیروں کی جکڑ اسے پابند کر سکی، اور نہ ہی ظلم کی آندھیاں اس کے قدموں کو متزلزل کر سکیں۔ بلوچ عورت کی استقامت ایک ایسی سچائی ہے جو وقت کے ہر امتحان میں سرخرو ہوئی ہے اور آئندہ بھی اسی طرح اپنی روشنی سے مزاحمت کی راہ کو منور کرتی رہے گی۔ وہ ایک ماں ہے، ایک بہن ہے، ایک بیٹی ہے، مگر اس سے بڑھ کر، وہ ایک انقلابی ہے، جو اس سماج کے اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر وہ خاموش رہی تو تاریخ اس کے ساتھ بھی وہی کرے گی جو ہر مظلوم کے ساتھ ہوا ہے۔ وہ سمجھتی ہے کہ آزادی، مساوات، اور عزت کوئی خیرات میں ملنے والی چیزیں نہیں —یہ چھینی جاتی ہیں، یہ جدوجہد سے حاصل کی جاتی ہیں، یہ قربانی مانگتی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ بلوچ عورت اپنی تاریخی ذمہ داری کو مکمل طور پر قبول کرے، اپنی بھائیوں اور جہد کار بہنوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر اس جبر کے خلاف کھڑی ہوجو انہیں زنجیروں میں جکڑی ہے۔

بلوچ عورت کی مزاحمت محض جبر و استبداد کے خلاف نہیں، بلکہ اس ہر اس بیانیے کو بھی مسترد کرنے کا نام ہے جو اس کی حیثیت کو غلامی کے دائرے میں قید کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ خاص طور پر مذہبی انتہا پسندی کا وہ مخصوص بیانیہ، جو عورت کو ایک مکمل انسان کے بجائے محض ایک تابع فرمان مخلوق کے طور پر پیش کرتا ہے، بلوچ عورت کے مزاحمتی شعور کے سامنے بے معنی ہو جاتا ہے۔
یہ جدوجہد کسی مخصوص صنف، مذہب یا گروہ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک وسیع فکری مزاحمت ہے جو ہر اس طاقت کے خلاف کھڑی ہوتی ہے جو انسان کو فکری اور سماجی زنجیروں میں جکڑنا چاہتی ہے۔ ہر بلوچ عورت کو چاہیے کہ وہ جنسی تفریق سے بالاتر ہو کر سامراجی جبر، پدرشاہی تسلط اور مذہبی انتہا پسندی کے اس جابرانہ گٹھ جوڑ کو چیلنج کرے، جو صدیوں سے آزادیئ فکر و وجود کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہ چیلنج محض کسی مخصوص طبقے کے خلاف نہیں، بلکہ اس سوچ کے خلاف ہے جو انسانوں کی برابری کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے۔ بلوچ عورت، جو ہمیشہ سے مزاحمت اور خودمختاری کی علامت رہی ہے، اس فکری معرکے میں بھی اپنی جگہ پر ثابت قدم کھڑی ہے۔ وہ اپنے وجود، اپنے حقوق، اور اپنی آزادی کے لیے اسی استقامت کے ساتھ لڑتی رہے گی،
یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، یہ سفر ابھی جاری ہے۔ بلوچ عورت اپنے انقلابی ورثے کا علم بلند کیے آگے بڑھے گی، اور وہ دن دور نہیں جب تاریخ گواہی دے گی کہ آزادی کی اس جدوجہد میں عورت کی قربانی سب سے نمایاں تھیں۔
یہ جدوجہد صرف بندوق اٹھانے تک محدود نہیں، بلکہ یہ شعور، علم اور نظریے کی جنگ بھی ہے۔ ہر وہ عورت جو اپنے حق کے لیے بولتی ہے، جو سڑک پر نکلتی ہے، جو ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے —وہ ایک انقلابی ہے، ایک سپاہی ہے، ایک تاریخ ساز ہے۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچستان بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو منظم سازش کے تحت تباہ کیا جارہا ہے ۔ بی ایس او

بدھ مارچ 19 , 2025
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنی جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کا خطہ دھائیوں سے ریاستی جبر و استحصال کے نشانے پر ہے جہاں زندگی کا ہر پہلو ظلم و زوراکی سے شدید متاثر ہے، اسی طرح تعلیمی نظام میں بھی پسماندگی عروج پر ہے، […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ