بلوچ عورت انقلاب کی علامت، آٹھ مارچ کے تناظر میں

تحریر: رامین بلوچ — دوسرا حصہ
زرمبش اردو

تاہم، نوآبادیاتی نظام کے تسلط کے بعد بلوچ سماج کی روایتی ساخت کو تبدیل کرنے کی شعوری کوشش کی گئی۔ استعماری طاقتوں نے بلوچ عورت کی آزادی اور سماجی حیثیت کو محدود کرنے کے لیے قدامت پسند عناصر کو تقویت دی، جنہوں نے عورت کو محض گھر کی چار دیواری تک محدود رکھنے کی روش کو فروغ دیا۔ زمین اور وسائل پر قبضے نے بلوچ عورت کے سیاسی و اقتصادی کردار کو کمزور کیا، اور ساتھ ہی فرسودہ سرداری نظام کو مستحکم کر کے اس کی تاریخی حیثیت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ باوجود اس کے، بلوچ عورت اپنی روایتی عزت، آزادی اور خودمختاری کی علامت کے طور پر آج بھی استقامت کے ساتھ کھڑی ہے۔

نوآبادیاتی جبر نے اگرچہ اس کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کیں، مگر اس کی جرأت و حوصلے کو کبھی زیر نہ کر سکا۔ آج بھی بلوچ عورت اپنی قومی شناخت، مساوات اور مزاحمتی شعور کے احیا کے لیے سرگرمِ عمل ہے، اور اس کی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔

ماقبل نوآبادیات بلوچ عورت کا وجود محض گھریلو ذمہ داریوں تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ ہمیشہ سے سماجی، معاشی اور بعض اوقات سیاسی فیصلوں میں بھی شریک رہی ہے۔ قدیم بلوچ سماج میں عورت کھیتی باڑی، مویشی پالنے، دستکاری اور تجارت جیسے شعبوں میں مرد کے شانہ بشانہ کھڑی تھی۔ جرگے اور قبائلی مشاورت میں اس کی رائے کو اہمیت دیا جاتا، خاص طور پر خاندانی تنازعات اور اجتماعی فیصلوں میں۔

تاہم، برطانوی وپنجابی سامراج کے نوآبادیاتی تسلط نے بلوچ عورت کے روایتی مقام کو متزلزل کر دیا۔ زمینوں کی ملکیت کے قوانین، وسائل پر قبضہ اور استحصالی پالیسیوں نے اس کے اقتصادی کردار کو کمزور کیا، اس استعماری جبر نے عورت پر گھریلو قید، پردہ اور روایتی حدود کے بوجھ کو مزید گہرا کر دیا۔ سامراجی قوتوں نے مقامی روایات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا، جس سے عورت پر جبر کو ایک سماجی جواز فراہم ہوا۔
لیکن تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ عورت کبھی بھی محض پس منظر کا کردار نہیں رہی۔ روایتی بلوچ ثقافت میں عورت عزت، غیرت اور آزادی کا استعارہ رہی ہے۔ بلوچ لوک ادب میں عورت کو ہمیشہ مزاحمت، حوصلے اور خودمختاری کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا۔ ہانی اور شیریں جیسی داستانیں محض رومانوی قصے نہیں، بلکہ بلوچ عورت کے وقار، عزت اور اصول پسندی کی تاریخی علامتیں ہیں۔ بلوچ شاعری اور رزمیہ گیتوں میں عورت کو ایک ایسی قوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ظالم کے سامنے جھکنے کے بجائے مزاحمت کی راہ اپناتی ہے۔

اگر تاریخ کے اوراق پلٹے جائیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بلوچ قوم گزشتہ ساڑھے تین ہزار سال سے بیرونی جارحیت کے خلاف برسرِ پیکار رہی ہے، اور ہر مزاحمتی تحریک میں بلوچ خواتین کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ یہ وہ قوم ہے جس نے آزادی کو اپنا شعار بنایا اور کسی بھی بیرونی تسلط کو قبول نہیں کیا۔ بلوچ مزاحمت کی تاریخ صرف جنگی معرکوں تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک فکری، تہذیبی اور ثقافتی جدو جہد بھی ہے، جس میں بلوچ عورت اور مرددونوں نے برابر کا کردار ادا کیا ہے۔

بلوچوں نے اسپارٹیکس کی بغاوت سے سات سوسال پہلے غلامی کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، اور ہر دور میں اپنی تشخص اور آزادی کی حفاظت کے لے قربانیاں دیں۔چاہے وہ پرتگیزیوں کے خلاف ہو، عرب حملہ آوروں کے خلاف ہو،، برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت ہویا موجودہ پنجابی استعمار کے خلاف جدوجہد— اس تسلسل میں بلوچ عورت کا کردار بھی غیر معمولی رہاہے،جو نہ صرف میدان جنگ میں بہادری کی مثال بنی، بلکہ سماجی، سیاسی اور فکری محاذ پر ثابت قدم رہی۔
بلوچ تہذیب کی جڑیں مہر گڑھ کی قدیم ترین تہذیب میں پیوست ہیں — وہ تہذیب جہاں عورت کو مساوی، خودمختار اور باوقار مقام حاصل تھا۔ مہر گڑھ کی کھدائیوں سے ملنے والے شواہد ثابت کرتے ہیں کہ بلوچ عورت زراعت، دستکاری، طب اور دیگر معاشی سرگرمیوں میں نہ
صرف متحرک تھی، بلکہ سماجی و ثقافتی ترقی میں ایک فعال کردار ادا کر رہی تھی۔
آج کے استحصالی نظام اور نوآبادیاتی ذہنیت کے خلاف بلوچ عورت کی مزاحمت جاری ہے۔ وہ صرف ایک گھر تک محدود فرد نہیں، بلکہ اپنے
سماج کی آزادی، خودمختاری اور شناخت کی جنگ میں ایک اہم ستون ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جبر کے اندھیروں میں بلوچ عورت کا عزم
ہمیشہ ایک روشن چراغ کی مانند رہا ہے، اور وہ آج بھی اس روایت کو نبھا رہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی غیر ملکی حملہ آور نے بلوچ سرزمین کو روندنے کی کوشش کی، اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی وہ مزاحمتی روح ہے جو آج بھی بلوچ قوم کے مرد وزن کے اجتماعی شعور میں زندہ ہے، اور ہر دور میں ایک نئی قوت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے،
بلوچ سماج میں سامراجی قوتوں کی پیدا کردہ فرسودہ سرداری نظام اور مذہبی انتہا پسندی نے بلوچ عورت کو ایک سماجی زندان میں دھکیل دیا ہے۔ وہ جو کبھی غیرت، بہادری اور عشقِ وطن کا مجسمہ تھی، ماضی میں مذہبی جنون سے کوسوں دور تھی۔ مگر تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف حملہ آوروں —عربوں سے لے کر آج تک پنجابی مسلمانیّت کے پرچارکوں —نے مذہب کے نام پر ایسا افیون گھولا کہ بلوچ عورت کی فکری آزادی کو زہر آلود کر دیا گیا۔
تاہم، آج جب بلوچ اپنی تاریخ کی طرف مراجعت کر رہا ہے، جنگِ آزادی نے قوم کو ایک نئے شعور سے روشناس کر دیا ہے۔ اس شعور کی روشنی میں سب سے زیادہ متاثر بلوچ عورت ہوتی ہے، لیکن وہ کبھی اس آزمائش پر پشیمان نہیں ہوتی۔ وہ جو کبھی اپنے بیٹے، بھائی یا شوہر کی شہادت پر آہ و زاری نہیں کرتی، بلکہ آج خود اس جنگ کا ہراول دستہ بن چکی ہے۔ اگر وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکلتی ہے، تو یہ اس قومی جدوجہد کا تسلسل ہے۔ اگر وہ پمفلٹ بانٹتی ہے، تو وہ اس مزاحمت کو مہمیز دے رہی ہے۔ اگر وہ وال چاکنگ کرتی ہے، تو نوآبادیاتی طاقتوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر رہی ہے۔
بلوچ عورت نے مذہب کے نام پر عائد کی گئی قید و بند کو مسترد کر کے عملی میدان میں قدم رکھ دیا ہے۔ وہ سڑکوں پر ریاستی جبر سہتی ہے، پولیس کے تشدد کا سامنا کرتی ہے، زخم کھاتی ہے، مگر اف تک نہیں کرتی۔ میں نے خود چند روز قبل ویڈیوکلپس میں ایک بلوچ شہید کی قبر پر عورتوں کو
اپنے بیٹے کی شہادت پر جشن مناتے دیکھا۔ وہ نوحہ کناں نہیں تھیں، بلکہ شعر و باگل کے ساتھ اپنے شہید کو الوداع کہہ رہی تھیں۔ ان کی
آنکھوں میں آنسو نہیں، بلکہ شعلے تھے —مزاحمت کے، حوصلے کے، اور آزادی کے
یہی بلوچ عورت ہے —جس کی روح میں صدیوں کی غیرت، بہادری، اور آزادی کی تڑپ پیوست ہے۔ آج وہ صرف ایک ماں، بہن یا بیٹی نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک انقلاب اور ایک تاریخ ہے۔
بلوچ عورت محض ایک فرد نہیں، وہ ایک علامت ہے،مزاحمت، آزادی اور تاریخ کے دھارے میں اپنے وجود کی بازیافت کا استعارہ۔ تاریخ کے صفحات پر جبر کے خلاف نبرد آزما ہر قوم کی جدوجہد میں عورت کا کردار غیر معمولی رہا ہے، لیکن جب نوآبادیاتی استبداد اور مذہبی انتہا
پسندی یکجا ہو جائیں، تو عورت کی آزادی سب سے زیادہ زد میں آتی ہے۔ بلوچ عورت اس جبر کے خلاف اٹھنے والی ایک زندہ حقیقت ہے، جسے مذہب اور ریاست کی دو دھاری تلوار کا سامنا ہے۔
سامراجی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ طاقتور قوتوں نے ہمیشہ مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا—سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے،
استحصال کے جواز کے لیے، اور محکوم اقوام کی مزاحمت کو کمزور کرنے کے لیے۔ برطانوی سامراج نے ہندوستان میں مذہبی تفریق کو ہوا دی،
فرانسیسی استعماری قوتوں نے الجزائر میں مذہب کو بغاوت کچلنے کے لیے استعمال کیا، اور آج پنجا بی نوآبادیاتی ریاست یا بھی اسی روایت کو جاری رکھاہواہے۔ بلوچ عورت جبری گمشدگیوں، فوجی آپریشنوں اور ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کرتی ہے، تو یہی سامراجی بیانیہ، مذہبی فتویٰ کی شکل میں سامنے آتا ہے، جس کا واحد مقصد عورت کو چار دیواری میں محصور کرنا ہے۔یہ کوئی اتفاق نہیں کہ تاریخ میں ہر نوآبادیاتی قوت نے مقامی سماج کی عورت کو قابو کرنے کی کوشش کی۔
نوآبادیاتی جبر کے اندھیروں میں عورت محض ایک سماجی علامت نہیں بلکہ ایک زندہ، متحرک اور مزاحمتی قوت ہے۔ وہ صرف ماں، بیٹی یا بہن کے روایتی رشتوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ وہ ان رشتوں کی سرحدوں کو عبور کر کے جدوجہد کی معمار اور تحریکوں کی بنیاد بن جاتی ہے۔ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ جہاں بھی سامراجی استبداد نے پنجے گاڑے، وہیں عورت نے خود کو محض متاثرہ فریق نہیں بلکہ مزاحمت کا ہراول دستہ ثابت کیا۔
الجزائر کی جمیلہ بوپاشا ہو یا فلسطین کی لیلیٰ خالد، ویتنام کی گوریلا جنگجو ہوں یا کرد خواتین جنگجو، سب نے اس سچائی کو آشکار کیا کہ آزادی کی جدوجہد میں عورت نہ صرف صف اول میں کھڑی ہوتی ہے بلکہ تاریخ کے جبر کے خلاف ایک زندہ صدائے احتجاج بن جاتی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب عورت اپنے وجود کی وسعتوں کو پہچان لیتی ہے، اپنی زنجیروں کو پگھلا کر اپنی آزادی کی بنیاد رکھتی ہے، اپنی کوکھ میں جنم لینے والے خوابوں کو حقیقت کی مٹی میں بو دیتی ہے۔

بلوچ سرزمین بھی انہی انقلابی داستانوں کا تسلسل ہے، جہاں ماؤں کی گودیں محض محبت اور آغوشِ تربیت نہیں، بلکہ قربانی اور حوصلے کی تجربہ گاہیں ہیں۔ جہاں لمہ یاسمین جان جیسی مائیں اس دنیا کی ان چند ہستیوں میں سے ہیں جن کے لیے آنسو بہانا کمزوری نہیں، بلکہ مزاحمت کی توہین ہے۔ وہ ماں جو اپنے بیٹے کو آخری دفعہ دیکھ کر نہ سسکتی ہے، نہ ہاتھ کانپتے ہیں، نہ دل میں ملال آتا ہے، بلکہ وہ لمحہ اس کے لیے فخر اور عزم کی معراج بن جاتا ہے۔ جب وہ اپنے ہاتھوں سے بیٹے کے ماتھے پر بوسہ دیتی ہے تو دراصل وہ اپنے نظریے پر مہر ثبت کر رہی ہوتی ہے، جب وہ اس پر پھول نچھاور کرتی ہے تو درحقیقت وہ اپنی جیت کی تکمیل کر رہی ہوتی ہے۔

یہ قربانی وہ ہے جو کسی بھی نظریے کو امر کر دیتی ہے۔ لمہ یاسمین جان کا کردار ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی موازنہ نہیں، کوئی پیمانہ نہیں۔ تاریخ عالم نے بہت سی بہادر عورتوں کو دیکھا، مگر شاید ہی کسی نے لمہ یاسمین جان کی سی بے مثل جرات کو محسوس کیا ہو۔ اس کے لیے آزادی محض ایک خواب نہیں، بلکہ حقیقت ہے، ایک ایسی سچائی جس کے لیے اس نے سب کچھ وار دیا، اپنے خون کے رشتے، اپنی ممتا، اپنے آنسو، اپنی حسرتیں —سب کچھ۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچ عورت انقلاب کی علامت آٹھ مارچ کے تناظر میں

منگل مارچ 18 , 2025
تحریر: رامین بلوچ — تیسرا حصہ یہ وہی جذبہ ہے جو تاریخ کو بدل دیتا ہے، جو مزاحمت کو فتح میں ڈھال دیتا ہے، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ نوآبادیاتی ظلم چاہے جتنا بھی شدید ہو، وہ ایک ماں کے جذبے کو شکست نہیں دے سکتا۔ لمہ یاسمین جان […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ