کوہ سلیمان و ڈیرہ غازی خان بلوچ تحریک موجودہ پس منظر

تحریر: کوہ زاد
زرمبش اردو

شاید میرا عنوان کچھ حد تک مناسب ہو مگر میں تجزیاتی طور پر بلوچ تحریک حالیہ مسلح حملوں کے ڈیرہ غازی خان کوہ سلیمان پر اثرات اور بلوچ شناخت و سیاست پر بات کرونگا مگر یہاں کی عوام پنجاب و یہاں کی پروپیگنڈہ اور میڈیا کی چپکلش سے مکمل طور پر متاثر ہیں یا یوں کہوں کہ نو آبادیاتی نفسیات رکھتے ہیں۔ بلوچ سیاست یا تحریک شروع سے شروع دن سے ہی یہاں کے نوجوان و باشعور طبقہ ناصرف جڑے رہے بلکہ کئی نامور شخصیات بھی پیدا ہوئے جنہوں نے تنظیموں کو لیڈ کیا، جب بات نواب خیر بخش مری یا بالاچ مری کے زمانے کی آتی ہے تو یہاں کے لوگ اس وقت نا صرف بلوچ تحریک کی حمایت کرتے تھے بلکہ تحریک سے مختلف محاذوں پر وابستہ بھی تھے اس دور میں ہر طبقے کے لوگ شامل تھے اور آج بھی بالاچ کے نام پر یہاں کا ہر بچہ فخر کرتا ہے، مگر آج صرف ایک باشعور طبقے کے علاوه سب لوگ اکثریت سے بلوچ مسلح و غیر مسلح تنظیموں کو نا صرف دہشت گرد سمجھتے ہیں بلکہ اس کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ آخر بلوچ تحریک سے یہاں کا ایک عام بلوچ دور کیوں ہے ؟

جب ہم وجوہات کی بات کرتے ہیں تو بهت سی باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں غالباً ستر کی دہائی میں ریاست نے یہاں کے تمام بے روز گار اور غیر تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مختلف فورسز میں بھرتی کرکے نا صرف انہیں برین واش کیا بلکه ایک طے شده پالیسی کے تحت انہی نوجوانوں کو یہاں کی روایت، روایتی سماجی ساخت اور کلچر کو کافی حد تک بدلنے کے لیے استعمال کیا دوسری جانب یہاں کے بچوں کو سکالرشپ فراہم کرکے پنجاب کے سکولوں میں بھیجا گیا اور باقاعدہ طور پر زہن سازی کی گئی جو مکمل طور پر بلوچ مخالف تھی اور نوجوان طبقہ اور پڑھا لکھا طبقہ خود اپنی کلچر اور بلوچ شناخت کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنے لگا اور 15 بیس سال تک لگاتار یہ سلسلہ چلتا رہا جہاں ایک ایسی نسل تیار ہوئی جو کہ ناصرف انفرادیت پسندی بلکہ مکمل طور پر اپنی شناخت و روایت کو ترک کرنے لگی دوسری جانب یہ وہ وقت ہے۔ جب انقلابی سیاست کی جگہ ملا اور این جی اوز لیتی ہیں مگر اسی کی دہائی میں ریاست ترقی کے نام پر مزید لوٹ مار شروع کرتی ہے تو یہاں کے لوگوں کو چپڑاسی کی سیٹییں دے کر اِن کا دل جیت لیتی ہے۔

بنیادی طور پر یہاں کی اکثریت کو تعلیمی اداروں سے اور تعلیم سے دور رکھتا ہے ارشد محمود اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ غربت جہالت کی ماں ہے تو یقیناً یہاں کے لوگوں کو غریب اور ناخواندہ رکھا جاتا ہے دوسری جانب جن نوجوانوں کو بلوچ کش اداروں سے ریٹائر کیا جاتا ہے تو ان کے ہاتھوں میں ریڈیو سیٹس دی جاتیں کیونکہ جب سمارٹ موبائل اور ٹی وی تک یہاں کے لوگوں کی رسائی ممکن نہ تھی یہ پوانٹ فرانس کے الجزائرہ میں ریڈیو تقسیم کرنے والے نقطے کی عکاسی ہے اور جو ریڈیو سیٹس یہاں کے لوگ لے کر آئے تو قابض کی زبان بولنے والی میڈیا کے یہاں کے لوگ عادی ہوگئے اور یہ خبریں صرف سننے کی حد تک محدود نہ تھیں بلکہ یہ باتیں باقاعدہ طور پھیلائی جاتی تھی اس خطے کو زبردستی پنجاب میں شامل کرکے بلوچ اور پنجابی کی ازلی دشمنی کو دوستی میں بدلنے کی کوشش کی گئی اور یہ طبقہ جو نو آبادیاتی نفسیات کا شکار ہوا تو یہاں پر شناخت کا بحران بھی پیدا ہوا بلوچ اپنی مادری زبان چھوڑ کر اپنی شناخت بھلانے لگے مگر خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ یه وبا میدانی علاقوں تک محدود رہی۔

پھر دو هزار کے بعد جب بلوچ تحریک ایک فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوتا ہے یہاں پر بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او اور سیاسی پارٹیاں بنتی ہیں مگر بلوچ سیاست پر ہونے والے کریک ڈاؤن سے گرتے پڑتے آہستہ آہستہ مختلف منزلیں اور نامز تبدیل کر کے آج اس مقام تک پہنچ گئے کہ اپنی شناخت بلوچ سے تبدیل کرنے والے آج پھر بلوچ ہونے پر فخر محسوس کرنے لگے ہیں، کئی سالہ اس سیاسی سنگ میل سے کئی فائدے ہوئے جن میں پہلا اپنی شناخت کو بچانے کی فکر پیدا ہوئی اور اپنی زبان و روایات پر فخر کرنے اور ان سے محبت میں بھی اضافہ ہوا مگر بد قسمتی سے یہاں پر نیشنلزم کے جدید تقاضوں کے مطابق عوام کو ڈھالنے میں یہاں کے سیاسی لیڈر ناکام رہے۔

حالیہ مزاحمت و بلوچ لانگ مارچ نے فاصلوں کو بہت کم کردیا تھا مگر ہمارے سیاسی کارکنان پریشر اور کپیسٹی نہ ہونے کی وجہ سے اس سنہری موقع کو بروئے کار نہ لا سکے
جب بلوچ لبریشن آرمی مچھ بولان پر قبضہ کرتی ہے تو پوری ریاستی مشینری بی وائی سی بلوچ سیاسی قیادت کو عسکریت پسندی سے جوڑ کر منفی پروپیگنڈہ کرنے لگی اور کوہ سلیمان کے بھولے لوگ ریاست کی مکاری اور چالبازیوں کو نا صرف سمجھنے سے قاصر رہے بلکہ باقاعدہ طور پر بلوچ حق خود ارادیت اور آذادی کی مخالفت کرنے لگے اس کے بعد ہونے والے حملوں ہیروف اور دوسرے واقعات پر بھی جیو اور اے آر وائی کا پروپیگنڈہ یہاں پر خوب چلتا رہا ھال ہی میں جعفر ایکسپرس حملے کے بعد میرے تمام سوشل میڈیا اور فزیکل دوست یرغمالیوں کی بازیابی کے لیے دعائیں مانگتے رہے مختصر ریاستی پروپیگنڈے کے زیرِ اثر کوہ سلیمان بلوچ تحریک سے کافی دوری پر ہے۔ مگر میرا دعوی یہ نہیں کہ سیاسی طور پر تبدیلیاں نہیں آئی یا مکمل طور عوام بلوچ تحریک سے کٹ چکی ہے بلکہ یہ ہے کہ یہاں کے اکثر لوگ آج بلوچ تحریک حقیقی طور پر ناواقف ہونے کے باوجود مخالفت کرتے ہیں۔

میرا مقصد کسی کو مایوس کرنا یا مایوسی پھیلانا ہر گز نہیں بلکہ یہاں کی سیاسی قیادت اور عوام کو ایک بار سوچنے کی طرف راغب کرنا۔ آخر اختتام اس سوال پر کیا جنگ کے آنے سے یہاں کے حالات بدل سکتے ہیں یا پھر سیاسی سطح پر کونسی پالیسیاں اپنا کر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو نظریے اور تحریک سے جوڑا جاسکتا ہے ؟

اس سوال پر تفصیلی بحث ہوگی اگلی تحریر میں مزید آپ لوگوں کی رائے کا بھی خیال کیا جائے گا۔

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچستان عشق، قربانی اور سخی بخش کی لازوال داستان

جمعہ مارچ 14 , 2025
تحریر: میروانی بلوچزرمبش اردو ‎بلوچستان، وہ سرزمین جہاں ہوا کے ہر جھونکے میں آزادی کی صدا گونجتی ہے، جہاں پہاڑوں کی خاموشی میں شہیدوں کی دعائیں چھپی ہیں، جہاں ہر ذرے میں محبت اور ہر پتھر میں درد بستا ہے۔  جس کی مٹی میں شہیدوں کے خواب اگتے ہیں، اور […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ