تحریر رامین بلوچ – پہلاحصہ
زرمبش اردو

بلوچ سماجی تاریخ اور تہذیب کے عمیق مطالعہ سے یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ بلوچ معاشرہ ایک قدیم اور مضبوط ضابطہ اخلاق کے تحت پروان چڑھا ہے۔یہاں کے معاشرے میں پدرسری کے بجائے مدر سری نظام کے جڑیں گہری رہی ہیں، اور تاریخی شواہد بتاتے ہیں کے دنیا کے اکثر معاشرے پدرسری کے تابع تھے، بلوچ سماج میں عورت کو نہ صرف مساوی مقام حاصل تھا بلکہ وہ سماجی،اقتصادی خاندانی اور فیصلہ سازی کے امور میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔
بلوچ سماج میں عورت صنفی و حیاتیاتی تقسیم کی بنیاد پرکسی محدود دائرے میں مقید نہیں رہی، بلکہ اسے ہمیشہ عزت، خود مختیاری اور مساوات کے اصولوں پر استوار ایک باوقار حیثیت حاصل رہی ہے جو بلوچ روایات، ثقافت اور تہذیبی اصولوں نے عطاکی ہے۔یہاں عورت کو ایک کمزور صنف کے طور پر نہیں بلکہ ایک مضبوط، خودمختار اورفیصلہ ساز فرد کے طور پر دیکھا جاتاہے۔ جو نہ صرف گھریلو زندگی میں ایک فعال کردار ادا کرتی رہی ہے بلکہ جنگ و مزاحمت کے میدان میں بھی اپنی جرائت، بہادری اور قربانی کے مثالیں قائم کرچکی ہے۔
اوراق تاریخ گواہ ہیں کہ ماقبل نوآبادیاتی ادوار میں بلوچ عورت زندگی کے ہر شعبے میں سرگرم نظر آتی ہے۔مزاحمت کی راہوں میں اس کی قربانیوں کا رنگ لہوسے تابندہ رہاہے، یہ فدائیانہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، چاہے وہ کوئی بھی محاذ ہو، وہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج ہو،قومی شناخت کی بحالی کی جدوجہد ہو، یا انسانی حقوق کے پامالیوں کے خلاف تحریکیں _ بلوچ عورت ہمیشہ ہر اول دستہ میں رہی ہے۔ وہ نہ صرف تحریر و تقریر کے میدان میں اپنا لوہامنواتی رہی ہے بلکہ ادب و شاعری کے ذریعے بھی اپنے عزم و حوصلہ کا اظہار کرتی رہی ہے۔
بلوچ تاریخ کے دامن میں ایسی کئی جری خواتین کے نام ثبت ہیں، جنہوں نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف صف اول میں کھڑے ہوکرمزاحمت کی قیادت کی۔ میر چاکر کی بہن بانڑی ہو،مائی بیبو، گل بی بی ہو یا شہید داد شاہ کی بہن_ آج یہ بلوچ تاریخ کے وہ درخشندہ ستارے ہیں جنہوں نے بلوچ مزاحمتی تاریخ کو جلا بخشی اور اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ ہر معرکے میں پیش پیش رہیں۔
بلوچ سرزمین کی مٹی میں ایک عجیب سی خاصیت ہے —یہ نہ صرف جسموں کو جنم دیتی ہے بلکہ ان میں وہ آتش بھی بھرتی ہے جو ظلم کے اندھیروں کو روشنی میں بدلنے کی خواہش رکھتی ہے۔ بلوچ مرد کے بازوؤں میں جتنی قوت ہے، بلوچ عورت کے دل میں اس سے کہیں زیادہ جرات اور حوصلہ ہے۔ اس دھرتی کے باسیوں نے ہمیشہ عورت کو ماتے وطن کا درجہ دیاہے، اگر وطن ماں ہے، تو بلوچ عورت اس کی کوکھ ہے، جو نسل در نسل آزادی کی شمعیں جلاتی رہی ہے۔
جب تاریخ کے صفحات پلٹے جاتے ہیں، تو ہر صفحے پر بلوچ عورت کی مزاحمت کی روشن تحریکیں نظر آتی ہیں۔ کبھی وہ سنگت بانک کریمہ کی صورت میں علم و شعور کی مشعل اٹھاتی ہے، تو کبھی سنگت ڈاکٹر مارنگ بن کر بلوچ شناخت کے گمشدہ رنگوں کو دوبارہ ابھارتی ہے۔ کبھی وہ سنگت سمی وسنگت بیبو کی صورت میں احتجاج کی صدا بن جاتی ہے، تو کبھی سنگت حوران و گلزادی کے روپ میں وقت کے جبر کو چیر کر نکلتی ہے۔ بلوچ عورت کی مزاحمت کا سفر کسی ایک میدان تک محدود نہیں۔ اس نے قلم بھی اٹھایا، سیاست بھی کی، سفارت کاری میں بھی اپنی آواز بلند کیا اور جب وقت نے پکارا، تو وہ بندوق بھی تھامے میدان میں اتر آئی۔ بلوچ وومن فورم ہو یا ماضی میں بلوچ گہار موومنٹ یا بلوچ یکجہتی کمیٹی ہو یا کسی اور سمو راج کا پلیٹ فارم—بلوچ عورت نے ہر محاذ پر یہ ثابت کیا کہ وہ صرف گھر کی چاردیواری تک محدود نہیں بلکہ اپنی قوم کی تقدیر کا رخ موڑنے کی طاقت رکھتی ہے۔
بلوچ عورت: قربانی کی دیوی اور آزادی کی نوحہ گرہے۔کبھی کبھی تاریخ ایک ایسا لمحہ تخلیق کرتی ہے، جو آنے والی صدیوں کے لیے ایک شعلہ بن جاتا ہے —وہ لمحہ جب ایک انسان اپنی ذات کو تحلیل کر کے کسی بڑے خواب کی تکمیل میں فنا ہو جاتا ہے۔ بلوچ عورت کی مزاحمت محض احتجاجی بینر نہیں، بلکہ ایک عہد ہے، جو زمین کے ذروں میں بکھر کر بھی امر رہتا ہے۔ جب غلامی کی زنجیریں سخت ہو جاتی ہیں، جب ظلم کا گھنا سایہ دھرتی کی روشنی کو نگلنے لگتا ہے، تو کچھ وجود خود کو جلا کر چراغ بنا دیتے ہیں، تاکہ آزادی کی راہیں روشن رہیں۔
شاری بلوچ ہو، ماہل بلوچ، سمیعہ قلندرانی یا گنجاتون—یہ وہ نام ہیں جو ایک گونج میں بدل چکے ہیں، ایک ایسی گونج جو بندوقوں کی گھن گرج سے زیادہ طاقتور اور دلوں میں اتر جانے والی ہے۔ یہ وہ لمحے ہیں جب ایک بلوچ عورت اپنے خوابوں، اپنی ہنسی، اپنی آنکھوں میں سجے مستقبل کے سارے رنگ ایک فیصلے کی نظر کر دیتی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کی ذات کے ٹکڑے ٹکڑے ہوں گے، لیکن ان ٹکڑوں سے ایک نئی صبح کا سورج نکلے گا۔
یہ قربانی صرف جسمانی فنا کا نام نہیں، بلکہ ایک نظریاتی اور فکری استقامت کی معراج ہے۔ یہ انکار بھی ہے، اقرار بھی۔ یہ غلامی کو مسترد کرنے کی آخری حد بھی ہے اور آزادی کو سینے سے لگانے کا حتمی فیصلہ بھی۔ جب ایک بلوچ عورت فدائی بن کر تاریخ کے افق پر ابھرتی ہے، تو وہ صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی مٹی پر حق مانگ رہی ہوتی ہے۔
یہ ایک خاموش سوال بھی ہے اور ایک گرج دار جواب بھی—یہ ایک چیخ بھی ہے اور ایک عہد بھی۔ دنیا چاہے اسے کسی بھی نظر سے دیکھے، مگر یہ حقیقت نہیں جھٹلائی جا سکتی کہ جب زمین اپنی بیٹیوں کی قربانی مانگنے لگتی ہے، تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ آزادی کے بہت قریب پہنچ چکی ہے۔ بلوچ عورت کی یہ قربانیاں اسی ناقابلِ تسخیر جدوجہد کا استعارہ ہیں جو سرزمین کی کوکھ سے جنم لے کر تاریخ کے سینے پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتی ہے۔
یہ سفر ختم نہیں ہوتا، یہ فقط ایک نئے دور کی شروعات ہے۔ بلوچ سرزمین ماں ہے ، اور ماں کی بیٹیاں اگر مٹی میں مل بھی جائیں، تو اس مٹی سے ایک نئی بغاوت ضرور جنم لیتی ہے۔یہ مزاحمت صرف ایک وقتی جوش یا وقتی ردعمل نہیں، بلکہ ایک تسلسل ہے، جو مٹی سے جنم لیتا ہے اور ہوا کے ساتھ پروان چڑھتا ہے۔ بلوچ عورت کی مزاحمت محض جنگ کا نام نہیں، یہ غلامی کے انکار اور آزادی کے اختیار کا ایک اعلان ہے — ان کی جدوجہد یہ ثابت کرنے کا عزم کہ وہ تاریخ کی تماشائی نہیں بلکہ تاریخ کی معمار ہے۔ یہ محض ایک احتجاج نہیں، بلکہ اپنی شناخت اور وجود کی بازیابی کا وہ سفر ہے جو کبھی تھمتا نہیں۔
بلوچ عورت کی کہانی ایک ایسی زمین کی کہانی ہے، جو زخم بھی سہتی ہے اور خود ہی ان زخموں پر مرہم بھی رکھتی ہے۔ وہ دھرتی کی طرح صابر بھی ہے اور آتش فشاں کی مانند بپھری ہوئی بھی۔ وہ ماں بھی ہے، بہن بھی، بیٹی بھی اور ایک جنگجو بھی۔ اور جب ظلم اس کے دل پر ضرب لگاتا ہے، تو وہ پھر سے نئے جذبے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی ہے —اپنی مٹی، اپنی شناخت اور اپنی آزادی کے لیے۔۔۔۔۔ جب زمین سسکتی ہے، جب تاریخ کے صفحات پر زخموں کی تحریریں لکھی جاتی ہیں، جب آسمانوں سے صرف سناٹوں کا سایہ اترتا ہے، تب کہیں سے ایک آواز اٹھتی ہے —ایک ایسی آواز جو وقت کے جبر کو چیر کر نکلتی ہے، جو پتھروں کو پگھلا دیتی ہے، جو گونگی ہو جانے والی صدیوں کو زبان عطا کرتی ہے۔ یہی آواز ہے بلوچ عورت کی، جو اپنے لہو سے آزادی کے گیت لکھتی ہے اور اپنی سانسوں سے مزاحمت کا پرچم بلند کرتی ہے۔
یہ وہ آواز ہے جو صرف احتجاج نہیں، بلکہ ایک عہد ہے؛ جو فقط نعرہ نہیں، بلکہ ایک تاریخ ہے۔ یہ آواز خون کی سرخی میں لپٹی ہوئی، شہیدوں کے ناموں سے مزین، سچائی کے سنگین راستوں پر چلنے والی وہ صدا ہے، جو آنے والے وقتوں میں ایک حتمی حقیقت بن جاتی ہے۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب بلوچ عورت اپنی ذات سے ماورا ہو کر ایک تحریک میں ڈھل جاتی ہے، جب اس کا وجود خود ایک پیغام بن جاتا ہے، جب اس کے قدموں کی چاپ تاریخ کی گونج میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ آواز صرف احتجاجی نعروں میں نہیں، ماؤں کی آہوں میں بھی سنائی دیتی ہے؛ بہنوں کی راکھیوں میں، بیٹیوں کے سوالوں میں، اور ان بچوں کی خاموشی میں جو دن کے اجالوں اور رات کے اندھیروں میں اپنے والدین کے لوٹ آنے کا انتظار کرتے ہیں۔
یہ وہ صدا ہے جو زنجیروں سے ٹکرا کر انھیں چکناچور کر دیتی ہے، جو وقت کے اندھے جبر کو دیکھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بلوچ عورت صرف سرزمین کی بیٹی نہیں، بلکہ اس کا وقار، اس کا خواب، اس کی مزاحمت ہے۔ وہ اگر بکھرتی ہے، تو جدوجہد کی مٹی میں بیج بن کر اگتی ہے۔ وہ اگر گرتی ہے، تو تاریخ کے سینے پر ایک لازوال نقش چھوڑ جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے، جب طاقت کے ایوان اندھے ہو جاتے ہیں، تب یہی بلوچ عورت ایک توانا آواز بن کر گونجتی ہے —ایسی آواز جو کبھی دبائی نہیں جا سکتی، جو کبھی مٹائی نہیں جا سکتی، جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آزادی کی سرگوشی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔