
بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان جیئند بلوچ نے میڈیا کو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمچاروں نے گزشتہ 24 گھنٹوں سے جعفر ایکسپریس اور اس میں موجود یرغمالیوں پر مکمل کنٹرول برقرار رکھا ہے۔ دشمن کے 200 سے زائد حاضر سروس فوجی، انٹیلیجنس ایجنٹس، پولیس اور نیم فوجی اہلکار بی ایل اے کی تحویل میں ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو بلوچ سرزمین پر ریاستی دہشت گردی، جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت قتل، اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں براہ راست شریک رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی ایل اے نے بین الاقوامی جنگی قوانین اور انسانی حقوق کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی ریاست کو قیدیوں کے تبادلے کے لیے 48 گھنٹوں کی مہلت دی تھی۔ تاہم، قابض ریاست کی ہٹ دھرمی، بے حسی اور مسلسل تاخیری حربے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان اپنے ہی فوجی اہلکاروں کی زندگیاں بچانے میں سنجیدہ نہیں، بلکہ روایتی منافقت اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ اب ایک دن مکمل ہو چکا ہے، اور قابض ریاست کے پاس محض 24 گھنٹے باقی ہیں۔ اگر دی گئی مہلت کے اندر پاکستان نے قیدیوں کے تبادلے پر عملی پیش رفت نہ کی، تو تمام یرغمالیوں کو بلوچ قومی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ یہاں ان پر بلوچستان میں ریاستی مظالم، نوآبادیاتی قبضے، نسل کشی، استحصال، اور جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ یہ ٹرائل فوری، غیر جانبدار اور شفاف ہوگا، اور جرم ثابت ہونے پر بلوچ قومی قوانین کے مطابق مجرموں کو سزا دی جائے گی۔ پاکستان اور اس کے عسکری ادارے اگر یہ سمجھتے ہیں کہ تاخیری حربوں اور مصنوعی پروپیگنڈے سے صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے، تو یہ ان کی سنگین غلط فہمی ہے۔ بی ایل اے اپنے ہر اعلان پر مکمل عمل درآمد کرنے کی طاقت، صلاحیت اور عزم رکھتی ہے۔
جیئند بلوچ نے کہا کہ یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ پاکستانی فوج کو نہ اپنے اہلکاروں کی جانوں کی پرواہ ہے اور نہ ہی وہ مذاکرات کی سنجیدہ کوشش کر رہی ہے۔ اگر یہی رویہ برقرار رہا، تو مہلت ختم ہونے کے بعد ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ پانچ یرغمالیوں کو بلوچ قومی عدالت کے فیصلے کے مطابق سزا دی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بی ایل اے دشمن کو آخری موقع دے رہی ہے کہ وہ پروپیگنڈہ چھوڑ کر زمینی حقائق کو تسلیم کرے، مصنوعی بیانیے گھڑنے کے بجائے حقیقت کا سامنا کرے، اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ بصورت دیگر، بلوچ قومی مزاحمت کے فیصلے ناقابلِ واپسی ہوں گے، اور ہر لمحہ دشمن کے لیے مزید سنگین نتائج لے کر آئے گا۔