تحریر: کوہ زاد بلوچ
زرمبش اردو

میرا عنوان عورت ہے بلوچ عورت وہ عورت حانُل بھی ہو سکتی ہے سَمُل بھی یا پھر اکیسویں صدی یعنی آج کی باشعور عورت بھی ہوسکتی جو قومی شناخت و بقا کے لیے اپنوں کے ساتھ مل کر جہد کر رہی ہے اور دنیا کے سب سے حسین و دلکش لفظ (جو شاید میرے لیے حسین و خوبصورت لفظ ہے) ٫٫ سنگت ،، کا سہارا لے کر تمام بلوچوں کے ساتھ ایک پاک رشتہ استوار کرتی ہیں جو پسماندہ معاشروں کی مرد وُ عورت کے الگ تصور کو بھی خاک میں ملا دیتی ہیں اور سب کو برابر کے مقام یعنی انسان کے درجے پر لاتی ہیں
پر اِس دور میں بھی ایک عجیب حقیقت میں آج بھی ایک ایسے معاشرے میں رہ رہا ہوں جہاں عورت کو خطرہ تصور کیا جاتا ہے بیٹی کے پیدا ہوتے ہی اس پر پابندیاں لگ جاتی ہیں اور اس کے عزت بچانے کے لیے گھر کے تمام انسان یعنی مرد سرگرم ہو جاتے ہیں میرا تعلق اس سماج سے ہے جہاں قبضہ گیر کی چادر و چار دیواری کا تصور میرے معاشرے کی عورتوں کو ان کے تمام بنیادی حقوق سے محروم رکھتی ہے
مجھے حیرت ان نام نہاد انسانوں کی سوچ پر ہوتی ہے جو اِس دور میں بھی مرد و عورت کو جانور کی نظر سے دیکھتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ اگر مرد وُ عورت کو ایک ساتھ ملنے کا موقع ملے تو وہ جنسی تسکین میں لگ جائیں گے۔
یعنی انسان باشعور نہیں ایک خطرناک جنگلی حیوان ہے اور شعور کوئی وجود نہیں رکھتی (جنگلی سوچ کے مالک عورت کے مقام اس کو آسمان کی بلندی بتاتے ہیں مگر اس کو ہر وقت پاؤں تلے کچلتے ہیں) میں کچھ زیادہ اس موضوع کو نہیں چھیڑوں گا کیونکہ بہت ہی طویل بحث ہے المختصر یورپ کی ترقی کا ایک راز مرد و عورت کا برابر سماجی مقام ہے۔
اور ہمارے ہاں ماضی پسند زہنیت جو ہزاروں سال پرانی عربی کلچر کو اکیسویں صدی میں آئیڈیل گردانتے ہیں مگر اس رجعت پسند کلچر کا اطلاق صرف عورت پر ہوتا ہے
یہ نام نہاد اسلامک کلچر پر سوالیہ نشان ہے ؟
اگر ھم اسی طرح معاشرتی حقوق کا تعین کرتے رہے تو معاملہ سُلجھنے کی بجائے مزید الجھنوں کا شکار ہو گا اور سُلجھانے میں مزید کئی اِرتقائی صدیاں تباہ ہوں گی (میں بلوچیت کے حساب سے بات کر رہا ہوں) جب بات بلوچ معاشرے میں عورت کے مقام پر ہے تو یہ زہن نشین کرنا ضروری ہے کہ کریمہ و ماہرنگ کو جنم دینے والے سماج کا ایک اور پہلو بھی ہے جہاں شوہر کے ہاتھوں بیوی کلہاڑیوں کے وار سے قتل ہوتی ہے جہاں بہن سگے بھائی کے ہاتھوں سے گولیوں کا نشانہ بنتی۔
یہ باتیں بلوچ کلچر و روایات میں تو ہر گز نہیں ہیں تو یقیناً یہ غلامی کا حصہ ہیں اور نو آبادیاتی سوچ کی بہترین عکاسی بھی کرتی ہیں ورنے پھتر کے زمانے کی مہر گڑھ تہزیب بھی عورت کے کردار و مقام سے واقف تھی یعنی عورت کے مجسمے بلوچ سماج میں عورت کو قابل احترام اور ماں کا روپ عطا کرتی ہیں جس کی کوکھ سے ھم نے جنم لیا جب اسی طرح ھم آگے سفر کرتے ہیں ھمیں عورت مقدس روپ میں ہی بلوچ سماج میں دیکھنے کو ملتی ہے اور وہیں عورت حسن و عشق کی علامت بھی ہے اور ھمارے ہیں عشق وہ داستانیں بھی نایاب و دلنشیں ہیں جو شاید دنیا کی کسی تہذیب کے حصے میں آئی ہوں عشقیہ داستانوں کے کردار مرید ہو یا مست اگر ان کی شخصیت کو سمجھنا چاہتے ہیں تو جا کر ھانی و سمی کو پڑھیں مجھے بھی ان کی داستانیں اور شخصیت کو سمجھنے کا موقع تب ملا جب میں عورت کے کردار کو پڑھنے لگا یعنی ایک عورت عام انسان کو نا صرف حسن اور عشق کی بلندیاں عطا کرتی ہے بلکہ وہی بلوچ عورت ایک معزز سماجی شخصیت بھی بناتی ہے۔
میں نے بلوچ معاشرے میں عورت کو کے مقام کو جاننے کی کوشش کی مگر اُس مقام کا تعین نہیں کر پایا ہوسکتا ہے ایک عنصر بدلتا وقت اور ارتقائی سفر ہو مگر اور بھی کئی عوامل ہوں گے
میں نے جب فیوڈل سماج کی عورت کے حساب سے بلوچ عورت کو دیکھا تو بلوچ عورت کو بلند پایا جب یورپین ماڈرن تصور میں دیکھا تو بلوچ عورت کو الگ پایا
جب عرب کے اسلامی کلچر کی نقطہء نظر سے دیکھا تو بھی بلوچ میں عورت کے مقام کو الگ ہی پایا گھٹن سے پاک حسن پر لگی ناجائز پابندیوں سے پاک ایک حسین روپ میں بلوچ کو پایا جہاں عورت آزاد تھی اور اب اپنی آزادی کی جہد کر رہی ہے اور کرتی رہے گی
یہ الگ بات ہے کہ آج کے زمانے میں معاملات کچھ عجیب ہیں اور یہ غلامی کی پیدوار ہیں۔
مگر آج بھی باشعور بلوچ عورت نا صرف اپنی بقا اور آزادی کے لیے جہد کر رہی ہے بلکہ پورے بلوچ سماج کی آزادی و خودمختاری کی جنگ بھی لڑ رہی سلام ان تمام بلوچ عورتوں کو سرخ سلام جو جنگ زدہ سماج میں جنگ کا حصہ ہیں۔