تحریر شاہان بلوچ
زرمبش اردو

علم اور جنگ، بظاہر دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، لیکن حقیقت میں یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ علم حاصل کرتے ہیں، مگر جنگ میں نہیں کودتے، جبکہ کچھ علم کو جنگ کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بلوچ معاشرے میں ایک مسلح جدوجہد جاری ہے، اور اسی دوران کئی نوجوان تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ یہ سوال اہم ہے کہ وہ یہ علم کیسے حاصل کر رہے ہیں اور وہ اس جدوجہد میں کس طرح اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
علم صرف کتابوں اور ڈگریوں کا نام نہیں، بلکہ شعور، آگہی، اور معاملات کو گہرائی سے سمجھنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک باشعور شخص نہ صرف حالات کو سمجھتا ہے بلکہ مستقبل کے امکانات اور خدشات پر بھی غور کرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کل کیا ہو سکتا ہے، کیا ممکن ہے اور کیا ناممکن۔ اسی طرح، ایک ایسے ماحول میں جہاں جنگ جاری ہو، وہاں علم کا کردار اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔
جنگ کی مختلف صورتیں
جنگ کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ کچھ جذباتی بنیادوں پر لڑی جاتی ہیں، کچھ غلامی کے خلاف، کچھ اپنی سرزمین، اپنی بقا اور اپنی شناخت کے لیے۔ بلوچ جدوجہد آزادی کو دیکھا جائے تو یہ شناخت، سرزمین اور حق خودارادیت کے اصولوں پر مبنی ہے۔ اس جدوجہد میں علم رکھنے والا فرد محض جذباتی ہو کر فیصلے نہیں کرتا بلکہ وہ ہر پہلو پر غور و فکر کرتا ہے کہ یہ جنگ کیوں ہو رہی ہے، کیسے ہونی چاہیے، اور اس میں اس کا کردار کیا ہونا چاہیے۔
جنگ کی خوبصورتی
اگرچہ جنگ بظاہر تباہی، خونریزی اور المناک داستانوں سے جڑی ہوئی ہے، لیکن اس میں ایک خوبصورتی بھی ہے—یہ خوبصورتی جذبے کی ہے، قربانی کی ہے، استقامت کی ہے، اور اپنی پہچان کے تحفظ کی ہے۔ ہر جنگ کے پیچھے کوئی نہ کوئی فلسفہ ہوتا ہے، ایک خواب ہوتا ہے، ایک نظریہ ہوتا ہے۔ جو لوگ جنگ کے میدان میں اترتے ہیں، وہ اپنی زمین، اپنی آزادی، اور اپنے وجود کی بقا کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔
علم اور جنگ کا امتزاج
ایک باشعور انسان جنگ کو صرف بندوق اور گولی کے ذریعے نہیں دیکھتا بلکہ وہ حکمتِ عملی، تاریخ، سیاست، سفارت کاری، اور فکری مزاحمت کے تناظر میں بھی اسے سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جنگ جیتنے کے لیے صرف اسلحہ کافی نہیں، بلکہ شعور، دانش اور بصیرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی تحریکوں میں علم رکھنے والے افراد نے قیادت سنبھالی، اور انہوں نے اپنی تحریکوں کو ایک نظریاتی بنیاد دی۔
علم اور جنگ ایک دوسرے کے مخالف نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ جنگ کو جذبات کے بجائے فہم و فراست کے ساتھ لڑی جائے تو اس کے نتائج زیادہ دیرپا ہوتے ہیں۔ جنگ کی تباہی سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ علم کو اپنی ڈھال بنایا جائے اور جنگ کو صرف ایک انتہا کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کا راستہ متعین کیا جائے۔ یہی وہ فرق ہے جو ایک باشعور اور غیر باشعور فرد کے درمیان ہوتا ہے، اور یہی وہ شعور ہے جو کسی بھی قوم کو بقا کی راہ دکھاتا ہے۔