بلوچی زبان کی تاریخ اور مادری زبانوں کے عالمی دن کا پس منظر

تحریر: سعید یوسف بلوچ (آخری حصہ)

شعور ہر اس قوم کے دل میں دھڑکتاہے جسے غلام بنانے کی کوشش کی گئی، جس کی زبان کو کم تر ثابت کرنے کا حربہ آزمایا گیا، جس کی تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ڈاکٹر چے نے نوآبادیاتی فطرت و ذہنیت کے بارے میں اکثرکہاکرتے تھے ”کہ قوموں کو مارنے کے لیے ان کی زبان، ان کی تاریخ اور ان کی شناخت کو مٹا دو، پھر دیکھو وہ خود ہی تمہاری غلام بن جائیں گی۔”
یہ جدوجہد کھبی ختم نہیں ہوتی، روح اور وجود پر لگے زخموں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا،بقا کی جدوجہد کبھی خاموش نہیں ہوتی۔ ویتنام کی زمین نے نیپام بموں کی بارش سہی، مگر پھر بھی وہ اس خاکستر میں سے سر اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ کیوبا پر لاطینی امریکی کی ہوا کا پہلا جھونکا آزادی کا پیغام لے کر آیا۔ جنوبی افریقہ کے سیاہ جسموں پر کوڑے برسائے گئے، مگر ان کے خوابوں کو زنجیریں نہ پہنائی جا سکیں۔
یہ تاریخ نہیں، یہ مقدر ہے۔ جو بھی زمین غلامی کے پنجے میں آتی ہے، وہی زمین ایک دن آزادی کے چراغوں کو جلانے کے لیے کھڑی ہو
جاتی ہے۔ ہر نسل کی اپنی جنگ ہوتی ہے، ہر سرزمین کی اپنی چیخ۔ مگر ایک وعدہ ہر آزادی پسند آنکھ میں جلتا رہتا ہے۔
ہمیں عہد کرنا ہے کہ ہم اپنی زمین پر غلام نہیں رہیں گے۔ ہم اپنی زبان میں سانس لیں گے، ہم اپنی شناخت کو بچانے کے لئے لڑ یں گے مریں گے اور زندہ رہیں گے!آئرلینڈ کی سبز وادیوں میں، جہاں ہر پتھر پر بغاوت کندہ تھی الجزائر کی تپتی ہوئی گلیوں میں، جہاں ہر دیوار پر خون کی تحریریں تھیں۔جنوبی افریقہ کی جیلوں میں، جہاں منڈیلا کے ثابت قدمی نے زنجیروں کو توڑنے کا حوصلہ دیا۔
یہ سب خواب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، جیسے کوئی ندی پہاڑوں سے نکل کر میدانوں میں بہتی ہو اور سمندر تک جا پہنچتاہے۔ ہر جگہ، ہر وقت، ہر زبان میں ایک ہی بات کہی جاتی ہے کہہم جھکیں گے نہیں۔ ہم اپنی زمین، اپنی زبان، اپنی شناخت کے لیے جدوجہد کریں گے، جیسے ہمارے آباؤ اجداد نے کی تھی”آخر ایک دن رات کا یہ اندھیرا مدہم ہوگا۔ افق کے پار، ایک نیا سورج طلوع ہو گا۔ وہی سورج جو ہزاروں سال پہلے غلاموں کی بغاوت پر طلوع ہوا تھا، وہی سورج جو ویت نام کی جنگ کے بعد پہلی بار آزادی کی روشنی لے کر آیا تھا، وہی سورج جو آج بھی ہر اس جگہ چمکنے کے لیے تیار ہیں جہاں لوگ اپنی پہچان، اپنی زمین اور اپنے خوابوں کے لیے جدوجہد کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
یہ کہانی کبھی ختم نہیں ہوتی۔ یہ ہر اس دل میں زندہ رہتی ہے جو زنجیروں کو توڑنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ یہ کہانی صرف کسی ایک ملک کی نہیں، یہ ہر اس قوم کی کہانی ہے، جس کی شناخت کو مٹانے کی کوشش کی گئی، جس کی زبان کو کمتر کہا گیا، جس کی ثقافت کو غیر مہذب سمجھا گیا، جس کی تاریخ کو مسخ کیا گیا، جس کی خوابوں کو زنجیروں میں جکڑنے کی سازش کی گئی۔
زبان کسی بھی قوم کی تہذیب، ثقافت، اور تاریخی ورثے کی سب سے بڑی محافظ ہوتی ہے۔ اگر ہم واقعی اپنی زبانوں کو زندہ اور تابندہ رکھنا چاہتے ہیں، تو صرف زبانی دعوے کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ بلوچی اور براہوئی زبانیں صدیوں پر محیط ایک عظیم ادبی، ثقافتی، اور علمی تاریخ رکھتے ہیں۔ مگر موجودہ دور میں ان زبانوں کو درپیش چیلنجز اور تیزی سے بدلتے ہوئے معاشرتی و تکنیکی حالات میں ان کی ترویج و ترقی کے لیے منظم اور عملی کوششوں کی ضرورت ہے۔
ذیل میں بلوچی اور براہوئی زبان کی ترویج و ترقی کے لیے میری نظر میں چند تجاویز پیش کی جارہیں، جو اگر عملی جامہ پہنائی جائیں تو یہ زبانیں مزید مضبوط متحرک ہو سکتی ہیں۔ ان تجاویز پر عمل در آمد سے نہ صرف اور بلوچی اور براہوئی زبانوں کا تحفظ ہوگا،بلکہ یہ زبانیں اپنی جغرافیائی حدود سے باہر بھی ترویج پاکر دنیا بھر میں اپنی شناخت کو بر قرار رکھیں گے۔
1…… آن لائن لغات اور ایپس: بلوچی اور براہوئی زبانوں کے الفاظ، گرامر، اور تلفظ کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے موبائل ایپس اور آن لائن لغات تیار کی جائیں۔
2…… سوشل میڈیا اور یوٹیوب: یوٹیوب، فیس بک، اور دیگر سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر بلوچی اور براہوئی زبانوں میں معیاری اور دلچسپ مواد تخلیق کیا جائے تاکہ نئی نسل ان زبانوں کی طرف راغب ہو۔

3…… آن لائن مواد اور ویب سائٹس: بلوچی اور براہوئی زبان میں معیاری بلاگز، خبری ویب سائٹس، اور تعلیمی پورٹلز قائم کیے جائیں تاکہ ان زبانوں کی ترقی میں معاونت حاصل ہو۔
4…… ادبی کانفرنسز اور سیمینارز: بلوچی اور براہوئی زبانوں کے فروغ کے لیے بین الاقوامی سطح پر ادبی کانفرنسیں، سیمینارز، اور مشاعرے منعقد کیے جائیں تاکہ عالمی سطح پر ان زبانوں کی اہمیت اجاگر ہو۔
5…… کتب اور تحقیقی مواد: بلوچی اور براہوئی زبان میں کہانیاں، ناول، شاعری، تحقیقاتی مضامین، اور قومی سیاسی نصابی کتابیں شائع کی جائیں تاکہ قارئین ان زبانوں میں مواد حاصل کر سکیں۔
6…… فلم، ڈرامے اور تھیٹر: بلوچی اور براہوئی زبان میں معیاری فلمیں، ڈرامے، اور تھیٹر پروگرامز ترتیب دیے جائیں تاکہ ان زبانوں کو عوامی سطح پر مقبول بنایا جا سکے۔
7…… ڈیجیٹل مواد اور ای لرننگ: بلوچی اور براہوئی زبانوں میں ڈیجیٹل مواد تیار کیا جائے اور ان زبانوں میں ای لرننگ پلیٹ فارمز پر کورسز اور مواد فراہم کیا جائے۔
8…… مستند لغات کی تیاری: بلوچی اور براہوئی زبانوں کے جدید اور مستند لغات تیار کیے جائیں جو تعلیمی و تحقیقی اداروں میں مددگار ثابت
ہوں۔
9…… ترجمہ کا عمل: ان زبانوں کے بہترین ادب کو اردو، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا جائے، اور عالمی سطح پر ادب کے تراجم بلوچی اور براہوئی میں کیے جائیں تاکہ یہ زبانیں عالمی سطح پر متعارف ہوں۔
10…… بین الاقوامی روابط: دنیا کے مختلف ممالک اور اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں پر کام کیا جائے تاکہ بلوچی اور براہوئی زبانوں کی ترقی کی جا سکے، اور ایران، افغانستان اور دیگر علاقوں میں موجود بلوچی اور براہوئی بولنے والوں کے ساتھ ثقافتی، تجارتی، اور علمی روابط کو فروغ دیا جائے۔
11…… مادری زبان کا تحفظ: بلوچی اور براہوئی زبانوں کے تحفظ کے لیے خاندانوں میں زبان کی اہمیت پر زور دیا جائے۔بلوچ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان سکھائیں اور گھر میں بول چال، کہانیاں، گانے اور روزمرہ کا معمول قومی زبان میں رکھیں۔
12…… نصاب کی تیاری: ریاستی نصاب کے بجائے اپنا قومی نصاب تیار کیا جائے جو قومی زبان میں ہو
13…… ثقافتی تقریبات: بلوچی اور براہوئی زبانوں کے فروغ کے لیے ثقافتی فیسٹیولز، کانفرنسیں، اور ادبی تقریبات کا انعقاد کیا جائے تاکہ لوگوں میں ان زبانوں کا شعور بڑھ سکے۔
14…… سیاسی اور ادبی تنظیمیں: بلوچی اور براہوئی زبانوں کے ادب کو عالمی سطح پر متعارف کرانے کے لیے سیاسی و ادبی تنظیموں کی جانب
سے تحقیقاتی مضامین، جرائد، اور سائنسی مواد کی اشاعت کی جائے۔
15…… زبان کی بقا اور ترقی: زبان کا تحفظ قومی بقا کی جدوجہد کا لازمی حصہ ہے۔ سامراجی طاقتیں جانتی ہیں کہ اگر وہ کسی قوم کی زبان کو ختم
کر دیں، تو اس قوم کو کمزور کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی زبانوں کا تحفظ سیاسی، سماجی اور تعلیمی سطح پر ایک تحریک کے طور پر کرنی چاہیے۔
.16بلوچ شاعری، نثر، اور کہانیوں کو جدید میڈیا (ویب سائٹس، ای بکس، آڈیو بکس)کے ذریعے دنیا تک پہنچایا جائے۔
.17بلوچی اور براہوئی میں جدید سائنسی، تکنیکی، اور فلسفیانہ کتابیں لکھی جائیں تاکہ ان زبانوں کو "تعلیم یافتہ زبان” کے طور پر تسلیم کیا جا سکے جدید سائنسی، ٹیکنالوجیکل، اور ریسرچ مواد کو بلوچی اور براہوئی میں ترجمہ کیا جائے۔
-18بلوچی اور براہوئی میں ڈیجیٹل مواد – یوٹیوب، پوڈکاسٹ، سوشل میڈیا، اور ای لرننگ پلیٹ فارمز پر ان زبانوں میں مواد تخلیق کیا جائے بلوچی اور براہوئی زبانوں میں تحریریں لکھی جائیں اور ان کے زریعہ بلوچ صحافت کو فروغ دیا جائے۔
.19عالمی سطح کے ادب، سائنس، اور تحقیقاتی مواد کا بلوچی اور براہوئی میں ترجمہ کیا جائے۔
-20بلوچی اور براہوئی میں تعلیمی،تکنیکی سافٹ ویئر اور ایپس تیار کیے جائیں
یہ اقدامات بلوچی اور براہوئی زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ اگر ہم نے آج اپنی زبانوں کی حفاظت کے لیے عملی قدم نہ اٹھایا، تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں اپنی یادداشت سے نکال دیں گی۔ لیکن اگر ہم نے اپنی زبان کی ترقی کے لیے حکمت عملی اپنائی، تو آنے والی نسلیں نہ صرف ہمارا نام، بلکہ ہماری زبان میں لکھی گئی تاریخ بھی پڑھیں گی۔
-21بلوچ سیاسی و ادبی تنطیموں اور جماعتوں کی جانب سے بلوچی اور براہوئی میں ریسرچ پیپرز، جرائد اور علمی سائنسی مضامین کی اشاعت کو فروغ دیا جائے۔
-22قومی زبان میں خبریں، ڈرامے، موسیقی، اور سوشل میڈیا مواد تخلیق کیا جائے، تاکہ نوجوان نسل اس سے جُڑی رہے۔
-23ڈیجیٹل لٹریچر، بلاگز، اور سوشل میڈیا مہمات قومی زبان میں چلائی جائیں.
-24کتابیں، ناول، شاعری، کہانیاں، صحافت اور پارٹی پریس ریلیز بلوچی اور زبان میں لکھی جائیں۔
ماضی کے ادبی شہ پاروں کو محفوظ کرکے نئی نسل تک پہنچایا جائے۔
-25بین الاقوامی فورمز پر آواز اٹھائی جائے کہ زبان کے خاتمے کی کوشش دراصل ثقافتی نسل کشی Genioside) (Cultural ہے۔
-26اپنی زبان میں سائنسی، تجارتی، اور ادبی ترقی ممکن بنائی جائے تاکہ وہ کسی بھی عالمی زبان کا متبادل بن سکے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زبان کا تحفظ، قومی بقا کی جدوجہد کا لازمی حصہ ہے. اگر کوئی قوم اپنی حاکمیت، شناخت، اور خودمختاری کی جدوجہد کر رہی ہے، تو زبان کی بقا سب سے اہم ہتھیار ہوتا ہے۔ سامراجی طاقتیں جانتی ہیں کہ اگر وہ کسی قوم کی زبان کو ختم کر دیں، تو اس قوم کو کمزور کرنا آسان ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مقبوضہ قوم کو چاہیے کہ وہ اپنی زبان کے تحفظ کو سیاسی، سماجی اور تعلیمی سطح پر ایک "تحریک” کے طور پر لے. جب کوئی قوم مقبوضہ ہو، تو قابض طاقت سب سے پہلے اس کی زبان اور ثقافت پر حملہ کرتی ہے، تاک وہ قوم اپنی شناخت کھو بیٹھے اور آہستہ آہستہ غلامی کو قبول کر لے۔ اگر کوئی قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرتی، تو وہ اپنے وجود کو بھی خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
سامراج ہمیشہ اپنی زبان کو "ترقی” اور "جدیدیت” کا ذریعہ بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ مقبوضہ قوم احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جائے۔
غیر ملکی زبان سیکھنا برا نہیں، لیکن اپنی زبان کو پسِ پشت ڈال کر غیر ملکی زبان کو مکمل طور پر اپنانا ثقافتی خودکشی کے مترادف ہے۔
ادبی اور سیاسی تاریخ کا تسلسل اوربلوچ آرکسٹرا کی تکمیل تب ہوگی،جب ہماری تمام زبانیں، تمام لہجے، اور تمام بولیاں ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے رہیں گے۔ اگر ہم ان میں تقسیم پیدا کریں، اگر ہم براہوئی، بلوچی، یا کسی اور زبان کو الگ الگ خانوں میں رکھیں گے، تو یہ ایسا ہوگا جیسے کسی جسم کے اعضاء کو کاٹ دیا جائے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ زبان کی تقسیم درحقیقت قوم کی تقسیم ہوتی ہے۔
اگر آج ہم نے اپنی زبانوں کے تحفظ اور فروغ کے لیے عملی قدم نہ اٹھایا، تو شاید آنے والی نسلیں ہمیں اپنی یاداشت سے نکالیں، اگر ہم اپنی زبان کے تحفظ کے لیے مضبوط حکمت عملی بنائیں، عملی اقدامات کریں،، تو آنے والی نسلیں صرف ہمارا نام ہی نہیں، بلکہ ہماری زبان میں لکھی گئی تاریخ بھی پڑھیں گی۔ وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں،کہ ہم اپنی زبان کو تاریخ کے پنوں میں دفن ہونے دیں گے، یا اسے مستقبل کی روشنی میں لے کر جائیں گے؟

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

وائس چانسلر ملک ترین کی تعلیم دشمنی: بلوچ کلچر ڈے پر پابندی ناقابلِ برداشت

بدھ مارچ 5 , 2025
تحریر: شاہان بلوچزرمبش اردو بلوچ ثقافت، جو ہزاروں سال پرانی تاریخ اور روایات کا حامل ہے، ہمیشہ سے علم، رواداری اور آزادی کی علامت رہی ہے۔ ہر سال 2 مارچ کو پورے بلوچستان میں بلوچ کلچر ڈے بھرپور جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، جہاں بلوچ طلبہ اپنی ثقافتی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ