تحریر: سعید یوسف بلوچ – تیسرا حصہ
زرمبش اردو

بلوچی زبان میں ایسے کلاسیکی اور جدید شاہکار موجود ہیں جو عالمی ادبی معیار کے ہم پلہ ہیں۔ ان تخلیقات میں وہ فکری گہرائی، جمالیاتی حسن، اور تخلیقی اظہار کی قوت موجود ہے،جو کسی بھی ترقی یافتہ زبان کے ادب میں پائی جاتی ہے۔
بلوچی ادب صرف ایک زبان کا ورثہ نہیں، بلکہ یہ ایک تہذیب، تاریخ، اور فکری روایت کا مظہر ہے، جو آنے والی نسلوں کے لیے نہ صرف ایک ثقافتی اثاثہ ہے بلکہ عالمی ادب کے وسیع منظرنامے میں اپنی منفرد پہچان بھی رکھتا ہے۔
اسی طرح براہوئی زبان محض ایک لسانی وجود نہیں، بلکہ بلوچی زبان کے ساتھ ایک گہرا تاریخی، ثقافتی، اور سماجی رشتہ رکھتی ہے۔ براہوئی بولنے والے اور بلوچی زبان کے متکلمین ایک ہی مشترکہ بلوچ شناخت کا حصہ ہیں۔ بلوچ قوم ایک کثیر اللسانی (Multilingual) قوم ہے، جو صرف براہوئی تک محدود نہیں، بلکہ لاسی، دہواری، سرائیکی، اور کھیترانڑیں جیسی زبانوں پر بھی مشتمل ہے۔ یہ تمام زبانیں ایک دوسرے سے الگ نہیں بلکہ بلوچ تہذیب کے مختلف لسانی پہلو ہیں۔ لہٰذا، براہوئی کو ایک الگ قوم کے طور پر پیش کرنا نوآبادیاتی دور کے اثرات کی پیداوار ہے، جب استعماری طاقتوں نے بلوچوں کے اندر لسانی تفریق کو ہوا دی تاکہ ان کی قومی وحدت کو کمزور کیا جا سکے۔
تاریخی شواہد یہ ثابت کرتے ہیں کہ براہوئی اور دیگر بلوچی زبانیں ایک دوسرے سے گہرے تعلق رکھتے ہیں۔ براہوئی کو دراوڑی لسانی خاندان سے جوڑنا ایک غیر مستند اور بے بنیاد نظریہ ہے، کیونکہ اس کے لغوی اور نحوی (grammatical) ڈھانچے میں بلوچی زبان کے اثرات نمایاں ہیں۔ براہوئی زبان ہزاروں سال کی قدیم تاریخ رکھتی ہے، اور اس کے بولنے والے بلوچ تہذیب، ثقافت، لباس، رسوم و رواج میں دیگر بلوچوں سے کسی طور مختلف نہیں۔ ان دونوں زبانوں کے درمیان محاورات، تاثرات، اور لغوی مماثلتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ زبانیں ایک ہی ثقافتی پس منظر سے جڑی ہوئی ہیں۔
بلوچی زبان کی طرح، براہوئی بھی ابتدائی طور پر زبانی روایت پر مبنی رہی ہے، جہاں ادب، شاعری، اور اساطیری (mythological) داستانیں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہیں۔ تاہم، براہوئی زبان کی تحریری شکل انیسویں صدی میں متعارف ہوئی، جبکہ اس کے ادبی و فکری ورثے کی جڑیں صدیوں پر محیط ہیں۔ اگرچہ اس کی تحریری تاریخ بلوچی کے رسمی وادبی ورثے کے مقابلے میں بعد میں سامنے آئی، لیکن اس کے باوجود یہ ہمیشہ بلوچ سماج کا ایک لازمی اور زندہ جزو رہی ہے۔
آج براہوئی زبان میں بے شمار شاعر، ادیب، اور افسانہ و ناول نگار جدید مزاحمتی اور ترقی پسند ادبی خطوط پر کام کر رہے ہیں، اور اس کا ادبی سرمایہ مسلسل ترقی کر رہا ہے۔ خاص طور پر مزاحمتی ادب کے حوالے سے یہ زبان بیش بہا تخلیقی ورثہ رکھتی ہے، جو سیاسی اور سماجی شعور کے اظہار کا ایک مؤثر ذریعہ رہی ہے۔ براہوئی، بلوچی زبان کی مانند، ایک قدیم اور ثقافتی ورثہ ہے، جس کے تحفظ، ترقی، اور فروغ کے لیے مزیدسنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
اگر ان زبانوں کو درپیش چیلنجز کا مؤثر انداز میں سامنا نہ کیا گیا، تو یہ آہستہ آہستہ معدومی کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔ اس لیے یہ ہماری قومی ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف ان زبانوں کی علمی اور ادبی ترقی میں کردار ادا کریں بلکہ انہیں مستقبل کی نسلوں کے لیے محفوظ بنائیں، تاکہ یہ نہ صرف ایک تاریخی ورثے کے طور پر باقی رہیں،بلکہ اپنی تخلیقی، فکری، اور ثقافتی شناخت کو بھی برقرار رکھ سکیں۔
جب استعماری طاقتوں نے بلوچوں کے اندر لسانی تفریق کو جداگانہ قومی تفریق سے جوڑ کر بلوچ قومی وحدت اور یکجہتی کو توڑنے اور کمزور کرنے کی کوشش کی، تو یہ ایک مکروہ حکمت عملی تھی جس کا مقصد بلوچوں کو تقسیم کر کے ان کی قوت کو کم کرنا تھا۔ انگریزوں کے دور میں، انہوں نے مختلف لسانی اور ثقافتی گروپوں کے درمیان فاصلے بڑھائے تاکہ ایک مضبوط، متحد قوم کا تصور نہ بن سکے۔ اس سے بلوچوں کی طاقت کو مزید توڑا گیا۔
آج بھی یہی صورتحال جاری ہے، خاص طور پر پنجابی استعمار کے اثرات کے تحت، جہاں بلوچی اور براہوئی زبان بوالنے والے واحد قوم درمیان زبان کے نام سے تفریق پیدا کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ بلوچ قوم کی مشترکہ شناخت اور قومی وحدت کو کمزور کیا جا سکے۔ اس صورتحال میں، بلوچوں کی اصل قومی طاقت ان کی یکجہتی اور مشترکہ شناخت میں مضمر ہے، جو مختلف زبانوں اور علاقوں کے باوجود ایک دوسرے کے قریب آ کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
لہذا، یہ ضروری ہے کہ بلوچوں کے درمیان لسانی، علاقائی، اور قومی تفریق کی کوششوں کا مقابلہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی تاریخی اور ثقافتی وحدت
کو مضبوط کریں اور استعمار کے اثرات کو ختم کر کے ایک مضبوط قوم کی صورت میں ابھریں۔
بلوچ زبان و تہذیب: مہر گڑھ سے مستقبل کی روشنی تک مٹی کی خوشبو میں رچے بسے الفاظ، سنگ و خشت کی زبان میں لکھی گئی تاریخ، اور لہجوں میں گونجتی صدائیں … یہ سب بلوچ کی وہ میراث ہیں، جو صدیوں کے سفر میں کبھی مٹ نہ سکیں۔ مہر گڑھ کے قدیم آثار اس حقیقت کے ناقابل تردید گواہ ہے کہ بلوچ کوئی نووارد قوم نہیں، بلکہ گیارہ ہزار سال قبل تہذیب کے دامن میں زندگی کی اولین نقوش ثبت کرنے والی قوم ہے۔جس نے تہذیب کے دامن میں زندگی کے نقش بنائے۔یہاں کی سرزمین صرف بستیاں بسانے کا تاریخ نہیں، بلکہ ایک ایسی تہذیب کا مسکن ہے، جس نے انسانی تمدن کو زرخیزی،فن اور تخلیق کا شعور بخشا۔
مہر گڑھ کے میدانوں میں ہل کی پہلی لکیر کھنچنے سے لے کر آج کے جدید دور تک، بلوچ مٹی سے جُڑے رہے ہیں۔ یہاں کی قدیم جھیلوں کے کنارے جو پہلی بستیاں بسیں، وہ آج بھی ہمارے ثقافتی وجود میں زندہ ہیں۔ میں کوئی ماہر لسانیات نہیں ہوں لیکن تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ گیارہزار سال قبل مہر گڑھ میں جو زبان گونجتی تھی، وہ بلوچی زبان کے اولین شکل ہوسکتی ہیں۔ زبان کے لہجے اور ہجے وقت کے ساتھ بدلتے رہے ہوں گے، مگر حقیقت یہی ہے کہ بلوچی زبان کی جڑیں مہر گڑھ کی مٹی میں پیوست ہیں۔ کیونکہ بلوچی زبان کی تاریخ اتنی قدیم ہے جتنی مہر گڑھ کی تاریخ،گویا بلوچی محض ایک زبان نہیں بلکہ ایک تہذیبی ورثہ ہے جو انسانی تاریخ کے اولین لسانی انقلاب میں سامنے آئی، اور مہر گڑھ کی تہذیب کسی ایک نسل یا خطے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کی تہذیب سے کوکھ سے کئی تہذیبیں جنم لی، جو دنیا کو علم و ہنر کی راہ دکھائی۔
بلوچ کی تاریخ ہمیشہ فاتحین کے قلم سے لکھی گئی، اور جب سچائی پر طاقت کے سائے پڑھ جائیں، تو حقیقت مسخ ہوکر مصلحت کی دھند میں کھوجاتی ہے۔جب قلم فاتحین کے ہاتھ میں رہا تو وہ طاقت کے نشے میں سچ کو روند ڈالی، تو تاریخ محض الفاظ کا گورکھ دھندہ بن گئی۔ انگریز اور دیگر استعماری مورخیننے بلوچ قوم کے تاریخی وجود کو مسخ کرنے کے لئے مختلف نظریات گھڑے اور بلوچ قوم کی ہجرت (Migration) کو ایک پر اسرار معمہ بنا دیا، جو متنازعہ رہی۔ یہ کہا گیا کہ بلوچ وسطی ایشیا سے آئے، پھر کسی نے فارس کی خاک میں تلاشنے کی کوشش کی، اور کسی نے عرب سرزمین کا باشندہ قرار دینے کی سازش کی۔ لیکن اگر بلوچ ہزاروں سال سے اسی سرزمین پر بستے رہے، اگر ان کی ثقافت اور زبان کے نقوش مہر گڑھ، ہڑپہ اور موہنجودڑو جیسے قدیم شہروں میں دکھائی دیں، تو پھر یہ کہنا کہ بلوچ کہیں باہر سے آئے ہیں، تاریخ کی سب سے بڑی جعل سازی ہے۔
زبان صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی، یہ ایک مکمل تہذیب، ایک تاریخ، اور شناخت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ لیکن جب نوآبادیاتی طاقتیں کسی قوم کو کمزور کرنا چاہتی ہیں، تو سب سے پہلے اس کی زبان کو بے وقعت کرتی ہیں۔ ہمیں یہ باور کرایا گیا کہ ہماری زبان علمی نہیں، اسے ترقی کے قابل نہیں سمجھا گیا، اور اسے دیگر زبانوں کے سائے میں دبانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی زبان کا معیارجغرافیائی حدود سے ماپا جا سکتا ہے؟ نہیں، زبان کی بقا کا راز اسے بولنے،لکھنے اور اسی اپنی شناخت کا محور بنانے میں مضمرہے، اور بلوچی زبان آج بھی وہی جوش، وہی حرارت کے ساتھ زندہ ہے۔
یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ بلوچ ہزاروں سال سے اپنی زمین کے حقیقی وارث ہونے کے باوجود نوآبادیاتی طاقتوں کے جبر کے باعث اپنی زبانوں کو ایک مرکزی حیثیت نہیں دے سکے۔ جو اس کا حق تھا آج ہم ایک ایسے استعماری نظام کے زیر اثر ہیں، جہاں انگریزی، عربی، اور فارسی کو علم و ترقی کی زبانیں سمجھا جاتا ہے، لیکن یاد رکھا جائے اپنی زبان کو پس پشت ڈال دینا کسی تہذیب کے زوال کی پہلی سیڑھی ہوتا ہے۔
کیا کسی قوم کا تہذیبی وجود اپنی زبان کو پسِ پشت ڈال کر برقرار رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں! زبان، محض ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک قوم کی روح، اس کی تاریخ، اس کی فکری آزادی کی بنیاد ہوتی ہے۔ اگر زبان کھو جائے، تو شناخت مٹ جاتی ہے، اور اگر شناخت مٹ جائے، تو تاریخ میں وہ قوم صرف ایک بے نام داستان بن کر رہ جاتی ہے۔
یہ کافی نہیں کہ ہم محض اپنی زبان کے تحفظ کے نام پر ایک رسمی اور علامتی دن مناکر اپنی ذمہ داریوں سے رائے فرار اختیار کریں۔ ایک دن منانا، ایک تحریر لکھنا، اخباری بیانات دینا، یا چند سیمینار کر لینا کافی نہیں۔ ہمیں اپنی زبان کی ترقی کے لیے وہی جذبہ پیدا کرنا ہوگا جو ویت نامیوں نے اپنی شناخت کے لیے اپنایا، اور وہی غیرت جو الجزائریوں نے فرانسیسی استعمار کے خلاف دکھائی، اور وہی عزم جو آئرش عوام نے اپنی آزادی، زبان اور ثقافت کے دفاع میں پیش کیا۔ ہمیں تاریخ کے اس سبق کو یاد رکھنا ہوگا کہ آزادی کاسفر ہمیشہ زبان،شناخت اور قومی وقار سے شروع ہوتاہے۔
وہی عزم،وہی روشنی جو غلامی کے اندھیروں کو نگلنے کے لیے کافی ہے۔ وہ روشنی جو نیلسن منڈیلا کی مسکراہٹ میں چمکتی تھی، جس نے ستائیس برس جیل کی دیواروں سے گفتگو کی۔ وہی روشنی جو ہو چی منہ کی آنکھوں میں لپک رہی تھی جب اس نے کہا تھا:”اگر زمین میں میری ہڈیاں دفن ہو جائیں، تب بھی میری روح آزادی کے نغمے گائے گی۔”