پوسٹر

ذوالفقار علی زلفی
زرمبش اردو

کبھی کبھی لگتا ہے سالا ہر بلوچ مستقبل کا پوسٹر ہے ـ یادش بخیر؛ بانک کریمہ بلوچ ہر ہفتے کسی جبری گم شدہ یا مقتول بلوچ کی تصویر پر مشتمل پوسٹر اٹھائے کھڑی نظر آتی تھی پھر وقت نے ایک دن ان کو ہی پوسٹر بنا دیا ـ کون، کب جیتے جاگتے انسان سے پوسٹر بن جائے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا ـ

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بچپن میں اپنے والد کی تصویر کا پوسٹر اٹھائے احتجاج کرتی نظر آتی تھیں ـ اب وہ روز کسی نئی تصویر کا پوسٹر اٹھائے ملتی ہیں ـ سمی بلوچ اپنے والد کی تصویر کا پوسٹر اٹھاتے اٹھاتے کب جوان ہوئیں یہ نہ انہیں پتہ چلا اور نہ ہی ان کے والد کو ـ سمی کہتی ہیں وہ کتابوں و ڈائریوں میں پھول رکھنا چاہتی ہیں مگر نہیں کرسکتی ـ سمی کو پوسٹر اٹھانے سے فرصت ہی نہیں ملتی ـ کوئٹہ پریس کلب کے سامنے ماما قدیر سالوں سے تصاویر کا اسٹال لگائے بیٹھے ہیں، یہ تصاویر روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہیں ـ

ایک نوجوان بلوچ طالب علم نے آہ بھر کر کہا "ہم عشق کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں” ـ پوچھا کیوں؟ ـ لڑکیاں سڑکوں پر مزاحمت کر رہی ہیں اور ہم یا تو جبری گم شدگی کے منتظر ہیں یا بندوق اٹھانے کا ارادہ لئے بیٹھے ہیں، ایسے میں بھلا عشق جیسی عیاشی کے متعلق سوچنے کی فرصت کہاں؟ ـ

گئے دنوں میں میرا صدیق عئیدو نامی دوست ہوا کرتا تھا ـ تعلق ساحلی شہر پسنی سے تھا ـ موصوف کو فلسفہ پڑھنے اور فلسفیانہ جملے بازی کا شوق تھا ـ جب بھی کراچی آتے مجھے گھسیٹتے ہوئے اردو بازار لے جاتے اور نئی نئی کتابیں خرید کر پسنی روانہ ہوجاتے ـ دوستوں میں وہ کامریڈ صدیق کے نام سے مشہور تھے لیکن مجھے پکا یقین ہے وہ ایک لمحے کے لئے بھی کمیونسٹ نہیں رہے ـ انہیں مارکسی فلسفے سے بڑی اچھی آگاہی تھی، لینن کو خوب کوٹ کرتے تھے شاید اسی لئے دوستوں کو غلط فہمی تھی وگرنہ وہ کٹر قوم پرست تھے ـ وہ ڈاکٹر مہدی حسن کے ادارے سے بھی منسلک تھے ـ یہ ادارہ انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرتا تھا ـ

ایک دن صدیق عئیدو کی کال آئی کہ آٹھ چوک پہنچو اردو بازار چلتے ہیں ـ میں وہاں پہنچا تو موصوف کا موڈ بدل چکا تھا ـ فرمایا پہلے کراچی پریس کلب چلتے ہیں ـ اس وقت بلوچ افسانہ نگار و فلم ساز ڈاکٹر حنیف شریف کی والدہ وہاں دھرنا دیے بیٹھی تھی ـ ڈاکٹر حنیف شریف تصویر بن کر تربت سے اڑتے ہوئے کراچی پریس کلب کے سامنے ٹنگے ہوئے تھے ـ

ہم وہاں پہنچے ـ زاہد کرد نامی نوجوان وہاں جوشیلے انداز میں محوِ گفتگو تھے ـ وہ بار بار فرانز فینن کا حوالہ دے رہے تھے ـ اب یاد تو نہیں آرہا موضوع کیا تھا مگر صدیق اور زاہد کے درمیان فینن پر زبردست بحث چھڑ گئی ـ مجھے بعد میں پتہ چلا زاہد کرد؛ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا ممبر ہے اور ان کا تعلق نال سے ہے ـ بحث کا نتیجہ تو نہ نکلا البتہ صدیق اور میں اردو بازار کی جانب نکل گئے ـ راستے میں صدیق نے کہا :

"یار ہماری بھی کیا زندگی ہے، دنیا بھر کی کتابیں پڑھنے کے بعد پریس کلب پر ٹنگی تصویر بن جاتے ہیں” ـ

وہی ہوا ـ ایک دن صدیق عئیدو گوادر سے پسنی آتے راستے میں دھر لئے گئے ـ مہینوں جبری گمشدگی کا شکار رہے ـ وہ پوسٹر بن کر زاہد کرد کے ہاتھ آئے ـ

چند مہینوں بعد صدیق عئیدو مسخ لاش بن کر بازیاب ہوگئے ـ زاہد کرد کا جوش غصے میں ڈھلتا رہا ـ وہ پوسٹر بدلتے رہے ـ پھر زاہد کرد نے قبائلی شناخت ترک کرکے خود کو زاہد بلوچ کے نام سے متعارف کروایا ـ موصوف طلبا تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوگئے ـ

کچھ سال گزرے ـ کرد سے بلوچ شناخت میں ڈھلے زاہد کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے اٹھا کر جبراً لاپتہ کردیے گئے ـ ہنوز جبراً لاپتہ ہیں ـ لطیف جوہر اور بانک کریمہ بلوچ پوسٹر کی شکل اختیار کرنے والے زاہد بلوچ کو لے کر کراچی میں اسی جگہ آکر بیٹھ گئے جہاں گئے وقتوں میں زاہد اور صدیق فرانز فینن پر بے نتیجہ بحث کر رہے تھے ـ

پھر بانک کریمہ بلوچ بھی ایک دن پوسٹر بن گئیں ـ

ہمارے دوست ساجد حسین کو کم لفظوں میں گہری بات کرنے پر کمال کا ملکہ حاصل تھا ـ بلوچ نیشنل موومنٹ کے مارکسی دانش ور حاجی رزاق سے ان کے گہرے تعلقات تھے ـ حاجی رزاق ان دنوں انسانی ارتقا کے موضوع پر بلوچی زبان میں کتاب لکھ رہے تھے ـ کتاب مکمل ہوتے ہی حاجی رزاق بھی ایک دن اپنی موٹر سائیکل پر لدے "ممنوعہ” کتابوں سمیت کراچی سے "غائب” ہو کر پوسٹر بن گئے ـ یہ پوسٹر کراچی پریس کلب کی بے حس دیواروں پر ٹنگا ہی تھا کہ ایک انتہائی مسخ لاش برآمد ہوئی ـ کافی تگ و دد کے بعد لاش پوسٹر بنے حاجی رزاق کی نکلی ـ ساجد حسین نے اپنے دوست کا نوحہ لکھ کر ان کی مسخ لاش کی شناخت کے طویل عمل کو "ایک لاش کا ارتقا” قرار دیا ـ

پھر ……..

پھر ایک دن ساجد حسین بھی پوسٹر بن گئے ـ

فوزیہ بلوچ کو بھی ہم روز پوسٹر بدلتے دیکھتے ہیں ـ پتہ نہیں پوسٹر اٹھانا وجہ ہے یا پوسٹر بنتے جوانوں کا دکھ، فوزیہ ہمیشہ اپنی عمر سے بڑی لگیں ـ انہیں بھی کتابوں میں پھول رکھنے کی کبھی اجازت نہیں ملی ـ اب وہ یاسر بلوچ کا پوسٹر اٹھائے پوچھ رہی ہیں کسی نے اس جواں کو دیکھا؟

"یار ہماری بھی کیا زندگی ہے، دنیا بھر کی کتابیں پڑھنے کے بعد پریس کلب پر ٹنگی تصویر بن جاتے ہیں”

مدیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچی زبان کی تاریخ اور مادری زبانوں کے عالمی دن کا پس منظر

ہفتہ مارچ 1 , 2025
تحریر:سعید یوسف بلوچ (دوسرا حصہ)زرمبش اردو چونکہ میری تعلیم نو آبادیاتی اسکولوں اور کالجوں میں ہوئی، جہاں اردو زبان رائج تھی، اس لئے اپنی قومی زبان میں بات کرنے پر سخت پابندیوں کاسامناکرنا پڑا۔مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب مجھے اسکول میں براہوئی زبان بولنے اور بلوچی ٹوپی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ