تحریر: سعید یوسف بلوچ – پہلا حصہ
زرمبش اردو

زبان کی تاریخ انتہائی قدیم ہے اس کی تاریخ انسانی تہذیب کے آغاز سے جڑا ہوا ہے۔زبان نہ صرف انسانی اظہار اوراور ابلاغ کا ذریعہ بلکہ یہ ثقافت، شناخت اور تہذیبی ارتقاء کی عکاس ہے۔ اگرچہ زبان کی درست ابتداء کا تعین کرنا مشکل ہے لیکن ماہرین لسانیات، بشریات اور ارتقائی حیاتیات کے مطابق زبانوں کی ایجاد کم ازم کم ایک لاکھ سال پرانی ہے۔ چونکہ زبان ایک زبانی oral)) اور سماجی اظہار ہے اس لئے اس کی کوئی قدیم تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں۔
تاہم زبان کی ایجاد کے متعلق مختلف نظریات موجود ہیں۔ ماہرین لسانیات کے مطابق انسانی زبان کا آغاز آہستہ آہستہ اور قدرتی ارتقاء کے ساتھ ہو۔ ابتدائی انسان نے آوازوں اور اشاروں کے ذریعے آپس میں رابطہ قائم کیا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ابتدائی انسانوں نے جانوروں اور قدرتی آوازوں کی نقالی کرکے زبان کی بنیاد رکھی۔ اس کے علاوہ، غم و خوشی اور درد تکلیف کے دوران نکلنے والی آوازیں، یا مل کر کام کرنے کی دوران اشارات اور آوازیں، آہستہ آہستہ زبان کی صورت میں منظم ہوگئیں۔
زبان کی ترقی کی سب سے بڑی وجہ سماجی روابط کی ضرورت تھی۔ جس کے باعث انسانوں نے اسے اپنے لئے بات چیت کا ذریعہ بنا لیا۔دنیا میں اس وقت ہزاروں زبانیں موجود ہیں،جو مختلف اقوام کے درمیان روابط کا بڑا وسیلہ ہیں۔
زبان کی تحریری ابتداء کا درست تعین کرنا مشکل ہے، لیکن ماہرین آثار قدیمہ اور لسانیات کے مطابق زبان کی تحریری ابتداء 3100 قبل مسیح میں ہوئی۔تحریر کی ایجاد بلاشبہ انسانی تاریخ میں انقلاب کی حیثیت رکھتی ہے، اور زبان انسانی تہذیب کی سب سے بڑی طاقت ہے۔تحریر کے وجود میں آنے سے پہلے، انسان زبانی روایات ،تصویری اشکال،علامات اور اشاروں کے ذریعہ آپس میں رابطہ رکھتاتھا۔ تاہم جیسے جیسے تہذیبیں ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے انقلابی ادوار میں داخل ہوئیں، تحریر کی ضرورت بڑھتی گئی۔ اس کے ذریعہ معلومات، علم، تاریخ اور زبان و روایات کو مستقل طور پر محفوظ کیا جانے لگا۔
ماہرین لسانیات کے تحقیق کے مطابق انسانی تاریخ میں سب سے پہلی تحریری زبان”سمیری“ تھی، جو کہ میسو پوٹیمیا(موجودہ عراق)میں 3100قبل مسیح لکھی گئی۔یہ زبان خط میخی میں گیلی مٹی کی تختیوں پر لکھی جاتی تھی،جنہیں بعد میں دھوپ میں خشک کیاجاتا تھا،یا آگ میں پکایا جاتا تھا تاکہ وہ سخت ہو سکیں۔ اس کے لے ایک نوکیلی لکڑی یا سر کنڈے کا قلم استعمال کیا جاتا تھا،جو مٹی پر پانچ کونوں والی میخ نما شکلیں بناتا تھا۔ابتداء میں یہ تصویری اور بصری علامات پر مشتمل تھا، مگر بعد میں اسے علامتی اور صوتی رسم الخط میں بدلاگیا۔خط میخی وہ بنیادی تحریری نظام تھا، جس سے جدید زبانوں کی تحریری وجود کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ انسان کی تحریری تاریخ کا نقطہ آغاز تھا۔
سمیریوں کے بعد بابلی، آشوری۔ یونانی، لاطینی، رومی، ایرانی، بلوچی، فارسی اور عرب اقوام نے اپنے اپنے رسم الخط ایجاد کیے، جس کے نتیجہ میں خط میخی متروک ہوگیا۔
چونکہ موضوع(International Mother Language Day) مادری زبانوں کے عالمی دن کے مناسبت سے ہے۔ ہم اس کے پس منظر کا جائزہ لیں گے کہ عالمی سطح پر اس دن کا انتخاب کیوں عمل میں آیا؟اور ہرسال یوم مادری زبان کیوں منایا جاتاہے؟
جب 21فروری کا دن آتاہے، تو ہم اس دن کو مادری زبان کے طور پر مناتے ہیں، جس کا مقصد دنیا بھر میں لسانی و ثقافتی تنوع کو فروغ دینا، اور مادری زبانوں (قومی زبانوں) کے تحفظ، اہمیت اور نشودو نماء کو اجاگر کرناہے۔ یہ دن ایک تاریخی جدوجہد اور تحریک سے جڑاہواہے، جس کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے۔یہ دن بنیاد ی طور پر1952میں بنگلہ دیش میں پیش آنے والے ایک خونی واقعہ کی یاد میں منا یا جاتاہے،جس نے لسانی حقوق کی تحریک کو ایک نئی سمت دی۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ڈھاکہ (بنگال) پاکستانی ریاست کے زیر تسلط تھا۔وہاں نوآبادیاتی جبر کے ذریعہ اردو کو واحدقومی زبان قراردے کر بنگالی زبان کو قومی زبان کے درجے سے محروم کردیا گیا۔تاہم بنگالی قوم نے اس فیصلہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے لسانی،قومی اور ثقافتی شناخت پر حملہ تصور کیا، بنگالی قوم کا موقف تھاکہ اردو کسی بھی صورت ہماری ہزارسالہ تاریخی و قومی زبان پر فوقیت نہیں لے سکتی،کیونکہ اردو زبان کی تاریخ نسبتادو سوسال پر محیط ہے، جو مختلف زبانوں کے میل جول سے بنی ہے۔،جب کہ بنگالی زبان اردو سے کہیں زیادہ قدیم ہے۔
آج دنیا بھر میں (300 ملین افراد بنگالی بولتے ہیں، جبکہ اردو زبان بولنے والے 200 ملین کے قریب ہیں۔ بنگالیوں کا موقف تھا کہ بنگالی زبان مکمل طور پر ایک خود مختیار لسانی نظام رکھتی ہے، جبکہ اردو ایک نوآبادیاتی زبان ہے۔ بنگالیوں کا موقف تھا، کہ ہماری ثقافت اور زبان سے کوئی رشتہ نہیں نہ رکھنے والی زبان کو کسی بھی صورت قدرتی لسانی ارتقائی زبان نہیں کہا جاسکتا۔بلکہ یہ فارسی، عربی اور دیگر علاقائی و ہندوستانی بولیوں جیسے کھڑی بولی،برج بھاشا، ترکی کے امتزاج سے مصنوعی طور پر رائج کی گئی ہے۔ اس کے برعکس ہماری قومی زبان بنگالی ہے، اور ہم کسی بھی صورت ایک نئی زبان کو اپنی قومی زبان پر ترجیح نہیں دے سکتے۔ جو ہماری نسلیں ہزاروں سال سے بولتی آرہی ہیں۔ اس ریاستی فیصلہ کے خلاف ڈھاکہ یونیورسٹی، ڈھاکہ میڈیکل کالج اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ تنظیموں نے بڑے پیمانے پر احتجاج کیا، جس کی پاداش میں ریاستی پولیس نے نہتے طلبہ پر گولیان چلادیں۔اس کے نتیجہ میں متعدد طلبہ راہنماء شہید ہوگئے۔ یہ دنیا کی تاریخ کا پہلاموقع تھا کہ کسی قوم نے اپنی قومی زبان کے تحفظ کے لئے اپنی جانوں کی قربانی دی۔
بعد میں 17نومبر 1999کو بنگلہ دیش کے آزادی کے دو دہائی بعد، اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو(UNESCO)نے بنگلہ دیشی جدوجہد کو مدنظر رکھتے ہوئے 21فروری کو عالمی یوم مادری زبان منانے کا اعلان کیا۔2002میں اقوام متحدہ نے اس دن کو باقائدہ طور پر عالمی سطح پر تسلیم کیا۔اس دن کو منانے کا مقصد قومی زبانوں کے تنوع، ان کی تاریخی پس منظر، لسانی ارتقاء، ثقافتی ورثے، قومی شناخت، مواصلاتی نظام اور زبانوں کے حقوق اور تحفظ کو اجاگر کرنا ہے۔
قومی زبانوں کا تنوع ایک اثاثہ ہے۔ زبان کا تحفظ صرف لسانی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک قوم کی شناخت،علمی، ادبی،سائنسی،اور تکنیکی ترقی تاریخ،یکجہتی اور ثقافت کا بنیادی مظہر اور جزو ہے۔یہ دن قومی زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لے ایک یادگار دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتاہے کہ قومی زبان محض ایک مقامی زبان نہیں، بلکہ قومی زبان کسی بھی قوم اور ملک کی شناخت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔
یہ وہ زبان ہوتاہے، جس کو بولنے والے نسل اور قوم کی اس کے ساتھ پوری تاریخ جڑی ہوئی ہوتی ہے۔ جو اس کی ثقافت، ادب، دستور، اور ملکی و انتظامی نظام کو چلانے کے لئے زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ نوآبادیاتی قوتیں ہمیشہ یہ کوشش کرتی رہی ہیں کہ ان کی زبان کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو،تاکہ قومی زبانیں پس منظر میں چلی جائیں اور زوال کا شکار ہوجائیں۔ قومی زبان وہ واحد ذریعہ ہوتی ہے جو ایک قوم کے افراد کو مشترکہ زبان میں اظہار کا موقع دیتی ہے، جس سے اتحاد اور یکجہتی پیدا ہوتی ہے۔ اگر ایک ملک یا قوم کے درمیان مختلف زبانیں بولی جائیں تو ایک مشترکہ قومی زبان ان کو آپس میں جوڑنے میں مدد دیتی ہے۔
زبان کسی بھی قوم کی ثقافتی وراثت، تاریخ، روایات، ادب شاعری، موسیقی اور دیگر تہذیبی پہلوؤں کے ذریعہ قوم کی شناخت کو محفوظ رکھتی ہے۔ حالیہ سائنسی تحقیقات سے ثابت ہواہے کہ اگر تعلیم قومی زبان میں دی جائے تو طلبہ زیادہ بہتر انداز میں سیکھنے کے مواقع حاصل کرتے ہیں۔ اور قومی زبان ہی واحد وسیلہ ہے،جس کے ذریعہ اقوام اپنی مملکتی قوانین اور پالیسیوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
قومی زبان کا کاروبار اور معیشیت میں اہم کردار ہوتا ہے۔ ایک قومی زبان کسی بھی ملک کو بین الاقوامی سطح پر منفرد شناخت دیتی ہے۔ اگر قومی زبان کو سائنسی،تکنیکی،ادبی علوم کے لئے استعمال کیا جائے تو عوام میں تحقیق اور تعلیم کے رجحان میں برق رفتاری آسکتی ہے۔ غرض یہ کہ قومی زبان کسی بھی ملک و قوم کے لے ایک لازمی عنصر ہے،جو نہ صرف اس کی ثقافت، تاریخ،شناخت اور ادب کو محفوظ رکھتی ہے بلکہ تعلیم معیشت، مملکتی امور، اور سائنسی و علمی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق، اس وقت دنیا میں سات ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن نوآبادیاتی اثرات کی وجہ سے وہ اپنے تحفظ اور بقاء کو برقرار رکھنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ بحیثیت بلوچ ہمارا خطہ صدیوں سے نوآبادیاتی طاقتوں کے زیر اثر رہاہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری قومی زبانیں، خصوصا بلوچی اور براہوئی تعلیمی،سائنسی۔ تکنیکی، ادبی اور سیاسی میدان میں وہ ترقی حاصل نہ کرسکیں جو انہیں ملنی چاہیے تھی۔ آج بلوچ مختلف نوآبادیاتی زبانوں جیسے فارسی،عربی اردو، انگریزی کے اثرات کا شکار ہیں۔ یہ تمام عوامل ایک منظم سازش کا حصہ ہیں۔ جس کا مقصد ہمیں ہماری قومی زبانوں سے محروم رکھنا ہے۔
اگر ہم اپنی سماج میں نوآبادیاتی اثرات کا جائزہ لیں تو ماضی قریب تک ہمارے عدالتی اور سرکاری امور فارسی زبان میں انجام دیئے جاتے رہے۔ خانی دور میں ”تعزیرات قلات“ کو بلوچی کے بجائے فارسی میں تحریر کیا گیا، جب کہ بندوبستی اراضی کی تمام دستاویزات فارسی میں مرتب کی گئیں۔
اگر چہ بلوچستان میں انگریزی کا رجحان نسبتا کم تھا، تاہم برطانوی قبضہ کے دوران انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ آج بھی ہمارے دینی مدارس میں فارسی اور عربی جب کہ نوآبادیاتی اسکولوں میں اردو زبان کو فوقیت دی گئی ہے۔اور اس سبب کے نتیجے میں بلوچی اور براہوئی زبانیں پس منظر میں چلی گئی ہیں جس کی وجہ سے ہم اپنی زبان میں علم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔
(بدقسمتی سے، میں اپنی زبان میں اس پیمانے پر اظہار خیال کرنے سے قاصر ہوں اور مجبورا ایک نو آبادیاتی زبان کا سہارا لینے پر مجبور ہوں۔ یہ میرے لئے کسی فخر کا باعث نہیں، بلکہ بحیثیت قلم کار میرے لئے احساس ملال اور فکری اضطراب کا سبب ہے۔
“جاری ہے”