
بلوچ وومن فارم کی مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر شلی بلوچ نے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جس کے باعث غم اور بے یقینی میں بھی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس ظلم کا شکار ہونے والے دو مزید نوجوان، یاسر بلوچ اور صابر علی، ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یاسر بلوچ، جو بینظیر یونیورسٹی لیاری میں میڈیا سائنس کے طالب علم ہیں، 25 فروری کو گلشن اقبال کراچی سے اپنے گھر (ملیر) جاتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ کر دیے گئے۔ اسی طرح، صابر علی، جو گشگ (خضدار) کے رہائشی ہیں، کو کراچی کے لیاری سے اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ علاج کی غرض سے وہاں موجود تھے۔
ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہا کہ اہلخانہ کو تاحال ان کی خیریت کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ ڈاکٹر شلی بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیاں معمول بن چکی ہیں، جس سے متاثرہ خاندان شدید ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ ریاستی ادارے اس غیر قانونی عمل کو ختم کرنے میں کوئی سنجیدگی نہیں دکھا رہے۔
انہوں نے بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں اور جبری گمشدگیوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔