مری اور بگٹی قبائل کا تنازعہ – امن یا تصادم؟تحریر: اکبر بلوچ

بلوچستان کی سر زمین ضلع کوہلو اور ڈیرہ بگٹی کے سرحدی علاقوں پر بسنے والے مری اور بگٹی قبائل صدیوں سے اپنی روایات، غیرت اور قبائلی اقدار کے ساتھ آباد ہیں۔ دونوں قبائل کی اپنی ایک الگ شناخت اور تاریخ ہے، جو انہیں بلوچستان کی ثقافتی وسماجی حیثیت میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ مگر حالیہ کچھ عرصے سے  دونوں قبائل کے درمیان مری پھیلاوغ زمین کے تنازعے نے شدت اختیار کر لی ہے، جس کی بنیادی وجہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کے غنڈوں نے جو کہ عوام فورسز کے نام سے غنڈا گردی میں ملوث ہیں نے مری قبیلے کی سرحدی زمینوں پر بزور بندوق اپنے 7 کیمپوں کو تعمیر کیا اور مزید قبضے کیے جا رہے ہیں۔


حتیٰ کہ مری پھیلاوغ زمین کے حدود میں اس تنازعے کی وجوہات میں چراگاہیں، پانی، ریت، پتھر اور قدرتی وسائل شامل ہیں، جو کہ نوحکانی بگٹی قبیلہ بزور قوت آگے بڑھ رہا ہے۔

اب یہ مسئلہ صرف زمین کی نہیں رہی بلکہ اے روز یہ غنڈے مسلح افراد تمام آنے جانے والے راہگیروں کو بھی نہیں بخشتے اور انہیں زد و کوب اور ان پر بے دردی سے تشدد کرتے ہیں لیکن یہ بات صرف زد و کوب اور تشدد کی نہیں ہے بلکہ اب تو حالیہ دنوں میں سرفراز بگٹی کے غنڈوں نے مری قبائل کے گھروں میں چھاپے مار کر لوہارانی مری کے   معززین اور غریب لوگوں کو اغوا کرکے کسی نامعلوم مقام پر منتقل کیا ہے اور تا حال  گرفتاری کی وجہ بھی نہیں بتایا گیا  اور مزید بھی ہر روز گرفتاریاں جاری ہیں جو کہ سراسر انسانیت کے خلاف ہے، لیکن مری قبیلہ ہمیشہ سے بھائی چارے اور ہمسایہ داری کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے اور وہ کسی قسم کے تصادم یا خونریزی کے حق میں نہیں ہے بلکہ ہمیشہ امن اور باہمی احترام کو ترجیح دیتا آیا ہے۔

اس کے باوجود مری قبیلے کے صبر کا امتحان لیا جا رہا ہے، کیونکہ بگٹی قبیلے کے کچھ مسلح عناصر نے طاقت کے زور پر مری لوہارانی کے سرزمین پر ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔  مری قبیلہ نہ تو جارحیت کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی غیر ضروری جنگ میں الجھنا چاہتا ہے، بلکہ وہ صرف اور صرف اپنی زمینوں پر اپنی تاریخی ملکیت برقرار رکھنا چاہتا ہے۔ مری کے عمائدین مسلسل اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اس مسئلہ کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے مگر جبراً مسلط کردہ قبضہ کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

مری قبیلے کی بنیادی خواہش یہی ہے کہ بگٹی قبائل کی مسلح چوکیوں اور غنڈہ گرد فورسز کو ان کی زمینوں سے ہٹایا جائے تاکہ خطے میں دیرپا امن قائم رہے کیونکہ یہ تنازعہ نہ صرف دونوں قبائل کی ہے بلکہ پورے علاقے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ مری پھیلاوغ زمین کے جھگڑوں کے باعث عام قبائلی لوگ خوف و ہراس میں مبتلا ہو رہے ہیں، روزمرہ لوگوں کی زندگیاں متاثر ہو رہی ہیں، اور مقامی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

اس کے علاوہ، ایسے تنازعات بلوچستان میں مجموعی طور پر قبائلی ہم آہنگی اور اتحاد کو کمزور کر سکتے ہیں، جو کہ دشمن قوتوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس طرح کے جھگڑے بعض اوقات بڑے تصادم میں بدل سکتے ہیں، جس کا نقصان صرف فریقین کو نہیں بلکہ پورے صوبے کو اٹھانا پڑتا ہے، اور اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کی حکومت، قبائلی و سیاسی رہنما اور جرگہ نظام متحرک ہو کر اس تنازعے کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔

بلوچ روایات میں جرگہ ہمیشہ ایک مؤثر ذریعہ رہا ہے، جس کے ذریعے پیچیدہ تنازعات بھی حل کیے جاتے ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں غیر جانبدار رہتے ہوئے فوری طور پر ایک جرگہ مری پھیلاوغ اور بگٹی کی حدبندی بحوالہ مری بگٹی قبائلی جرگہ 1904 بمقام سبی اور موجودہ دستیاب سرکاری ریکارڈ کے مطابق کرایا جائے، جہاں مری اور بگٹی قبائل کے معتبرین کو شامل کیا جائے اور کسی ایسے حل تک پہنچا جائے جو دونوں کے لیے قابلِ قبول ہو، مری قبیلے کا موقف واضح ہے کہ وہ لڑائی نہیں چاہتا، مگر اپنی سرزمین پر کسی قسم کی غیر قانونی مداخلت بھی برداشت نہیں کرے گا۔

وہ امن کا داعی ہے، مگر اپنی بقا اور حقوق کے تحفظ کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا۔ اس تنازعے کا واحد حل یہی ہے کہ بگٹی قبیلے کے مسلح عناصر مری قبیلے کی زمینوں سے پیچھے ہٹیں اور قبائلی روایات کے مطابق اس معاملے کو آمنے سامنے بیٹھ کر حل کیا جائے۔ اگر اس تنازعے نے طول پکڑا تو اس کا نتیجہ بہت برا نکلے گا اور اس قبائلی جنگ میں بھڑکنے والی آگ کی وجہ سے ہر عام و خاص اور بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوسکتی ہیں، کیونکہ بلوچ قبائل کا یہ روایت ہے کہ وہ پہلے جنگ کرنے سے گریز کرتا ہے لیکن اگر ایک بار جنگ کا آغاز کیا تو پھر ان کو روکھنا ناممکن نہیں بلکہ بہت مشکل بن جاتی ہے جو کہ پورے علاقے کے لیے نقصان دہ ہوگا، حقیقی بھائی چارہ اور امن اسی میں ہی ہے کہ سرفراز بگٹی اپنی قبیلے کے غنڈوں کو اپنی حدود میں رکھیں، اور طاقت کے بل بوتے پر قبضے کے بجائے انصاف اور روایتی اصولوں کو اپنایا جائے، مری قبیلہ امن چاہتا ہے، مگر اپنی زمینوں پر قبضہ ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ اب یہ حکومت، جرگہ، اور قبائلی رہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو مزید بگڑنے سے پہلے اس کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل نکالیں۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بارکھان: بلوچ سرمچار مختلف مقامات پر آگاہی مہم کے لیے قوم سے خطاب اور ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

پیر فروری 10 , 2025
بارکھان: بلوچ سرمچار گزشتہ چند روز سے بارکھان کے مختلف علاقوں پر آگاہی مہم کے لیے قوم سے خطاب اور ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بارکھان کے مختلف مقامات بغاو کے علاقے دامان، بستی وڈیرہ محمد حسین، سیلانی، رحیمانی اور ٹوٹیانی کے علاقے میں مسلسل گشت کر رہے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ