
کہا جاتا ہے کہ جنگ صرف میدانِ جنگ میں نہیں لڑی جاتی، بلکہ یہ انسان کے دل کی گہرائیوں میں چھپے اندھیروں کو بھی بے نقاب کر دیتی ہے۔ جب پہلا تیر کمان سے نکلتا ہے، توپوں کی گرج فضا کو لرزاتی ہے اور بارود کی بو ہوا میں بکھر کر جنگ کی حقیقت کو محسوس کراتی ہے، تب انسان کی بدترین خصوصیات اپنی پوری شدت کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔ جنگ محض زمین کے ٹکڑے حاصل کرنے کا کھیل نہیں، بلکہ یہ انا، لالچ، ظلم اور بے رحمی کی سب سے سیاہ شکل ہے۔
جنگ کی جڑ ہمیشہ طاقت اور لالچ میں چھپی ہوتی ہے۔ جب کوئی حکمران اپنی بادشاہت کو وسعت دینے کے خواب دیکھتا ہے، جب کوئی سپہ سالار تاریخ میں اپنا نام سنہری حروف سے لکھوانے کے لیے لشکر تیار کرتا ہے، یا جب کوئی قوم اپنے مفادات کی خاطر دوسری قوم کو غلام بنانے کے درپے ہوتی ہے، تو سمجھ لیں کہ جنگ کی شعلہ بھڑکنے کو ہے۔
مگر ستم ظریفی دیکھیں، جب جنگ ختم ہوتی ہے، تو میدان میں بکھری لاشیں، تباہ شدہ شہر اور سکوت میں ڈوبے ہوئے راستے ایک کہانی سناتے ہیں۔ فاتحین اپنے خون آلود ہاتھ دھو کر سکون سے تخت پر براجمان ہوتے ہیں، جبکہ شکست خوردہ اپنے برباد خوابوں کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔
جنگ کے دوران جو سب سے پہلا قتل ہوتی ہے، وہ انسانیت کا ہوتا ہے۔ سڑکوں پر بکھری لاشیں، ماؤں کی مغموم چیخیں، یتیم بچوں کی گمشدہ آنکھیں اور وہ گھر، جو کل تک ہنسی سے گونجتے تھے، آج ملبے میں دفن ہو جاتے ہیں۔ جنگ میں نہ عمر کی پہچان ہوتی ہے، نہ جنس کی، نہ معصومیت کی—صرف ایک قانون نافذ ہوتا ہے: یا مارو یا مر جاؤ!
تاریخ گواہ ہے کہ جنگ میں سب سے بڑے مظالم وہ لوگ کرتے ہیں جو خود کو مہذب اور شائستہ سمجھتے ہیں۔ وہ جو یونیورسٹیوں میں فلسفے پڑھاتے ہیں، جنگ کے میدان میں قیدیوں پر سب سے زیادہ ظلم ڈھاتے ہیں۔ وہ جو انسانی حقوق کے علمبردار ہیں، جنگ میں ہتھیار اٹھا کر سب سے پہلے قتل عام کرتے ہیں۔
جنگ کا دوسرا نام دھوکہ ہے۔ ایک دن امن معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں، اگلے ہی دن توپوں کی گرج سنائی دیتی ہے۔ تاریخ میں کتنی جنگیں ایسی ہوئیں جو جھوٹ، افواہوں اور سیاسی چالاکیوں کا نتیجہ تھیں۔ جنگ میں دشمن کو صرف ایک نمبر سمجھا جاتا ہے، ایک رکاوٹ جسے جتنا جلدی ہٹایا جا سکے، اتنا بہتر ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جنگ ہمیشہ غریبوں کے لیے لڑنے والی ہوتی ہے، اور جیت ہمیشہ امیروں کی ہوتی ہے۔ جنگ میں وہ سپاہی مارے جاتے ہیں جن کا ان تنازعات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ مائیں اپنے بچوں کو کھو دیتی ہیں جنہوں نے کبھی کسی کا نقصان نہیں کیا ہوتا۔ اور آخرکار، وہی چند حکمران جو جنگ شروع کرتے ہیں، خود سب سے زیادہ محفوظ رہتے ہیں۔
جنگ نفرت کا بیج بوتی ہے اور نفرت ہی جنگ کو جنم دیتی ہے۔ جب ایک قوم پر جنگ مسلط کی جاتی ہے، تو اس کے بچے انتقام کی آگ میں پروان چڑھ کر جوان ہوتے ہیں۔ یوں دشمنی نسلوں تک جاری رہتی ہے، اور امن ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ تاریخ میں کتنی ہی ایسی جنگیں ہیں جو صدیاں گزرنے کے باوجود ختم نہیں ہو سکیں، کیونکہ جنگ کے بیج اتنی گہرائی میں بوئے جاتے ہیں کہ وہ کبھی ختم نہیں ہوتے۔
جنگ کا کوئی فاتح نہیں ہوتا، صرف نقصان ہوتا ہے۔ زمینوں کی فتح ہو جاتی ہے، مگر خواب ہمیشہ دفن ہو جاتے ہیں۔ سرحدیں تو کھنچ جاتی ہیں، مگر ان کے بیچ انسانیت ہمیشہ کے لیے بٹ جاتی ہے۔ جنگ ہمیشہ یہ ثابت کرتی ہے کہ انسان اپنی ہی تباہی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
جنگ ایک ایسا امتحان ہے جس میں کوئی کامیاب نہیں ہوتا، یہ صرف دکھ، درد اور بربادی چھوڑ جاتی ہے۔ اگر انسان اپنی ترقی کا اصل ثبوت دینا چاہتا ہے، تو اسے ہتھیاروں کے بجائے مکالمے کو اپنانا ہوگا۔ دنیا نے بے شمار جنگیں دیکھ لی ہیں، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اصل فتح، یعنی امن کو حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں۔ کیونکہ اصل بہادری ہتھیار اٹھانے میں نہیں، بلکہ انہیں زمین پر رکھنے میں ہے۔