ڈاکٹر منان جان ہمارے سیاسی لیڈر ہی تھے

تحریر: گورگین بلوچ
زرمبش اردو

میرے گھر کے قریب بلوچستان کا جھنڈا لہراتا ہوا نظر آتا تھا۔ میری دادی روز جھنڈے کو دیکھ کر کہتی” کاش! یہ جنگ کامیاب ہوتا۔” آج جنگ کامیاب دکھتی ہے لیکن میری دادی ماں خاموش آزادی کی خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ ہر خواب کے بعد ایک نئی خواب دیکھنا اور ہر خواب کو حقیقی جامہ پہنانا۔ آخر اس بوڑی عورت نے ظلم کی انتہا دیکھی۔ اس انتہا میں ایک جنگ کی امید رکھی تھی اور جنگ کے بعد آزادی کی خواب دیکھ رہی ہے۔ اب تو مزاحمت اپنی پانچویں فیز میں پہنچ چکی ہے۔اب بوڑی دادیوں کو خواب دیکھنے کا بھی حق حاصل ہے کہ وہ اپنی باقی زندگیوں کو نئے تجربات اور مشاہدات سے گزرتے دیکھیں۔ میری دادی باقی لوگوں کے دادیوں کی طرح تجربات اور نئے زندگی کا معنی ڈھونڈنا چاہتی ہے۔ کبھی یہ بھی کہنا ہوگا کہ نہ صرف وہ بلکہ پورا بلوچستان ان جیسی دادیوں سے بھری ہے کہ وہ لرزتی ہوئی آواز سے دشمن کو للکارنا چاہتی ہیں۔ پھر جنگ کے دکھڑے سنانے والی عورتیں کس طرح ہوں گی یہ کوئی کھلم کھلا بتا تو دیں۔ یہ جنگ عام لوگوں کی اوقات کا موضوع نہیں ہے۔ جنگ کو بطور جنگ نہیں سمجھنا بلکہ یہ حقیقت کو اپنی لپیٹ میں لے کر ایک نیا زندگی مہیا کرواتی ہے۔ وہ زندگی آزادی کا ہے۔

حقیقی آزادی تک پہنچنے کیلئے انسانوں کو اپنے مال و دولت سے بڑ کر سوچنا چاہیے۔ آزادی کی خواب کوئی بچوں کا کھیل نہیں بلکہ یہ بڑے لوگوں کی امیدیں ہوتی ہیں۔ یہ آزادی انسان کو تشکیل دیتا ہے، ایک نئی روپ میں۔ باز اوقات یہ خواب دیہی علاقوں کے استحصال زدہ لوگوں کو آتا ہے۔ ان لوگوں کو کہ جن کے گھر مسمار ہوئے ہیں۔ جو شکنجوں میں جکڑ کر اب زندگی اور موت کے درمیان کشمکش کا شکار ہیں۔ وہ جو روز فوجی کیمپوں میں بوٹوں سے روند ڈالے جاتے ہیں۔ کبھی نوآبادیاتی نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ اور ڈاکٹر منان جان جیسے عظیم رہنمائیں بھی جنم لیتے ہیں۔ ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ اور ڈاکٹر منان جان وہ شخصیات ہیں کہ جنہوں نے بلوچستان کے کونے کونے تک اپنا سفر جاری رکھا۔ وہ چند جھونپڑیوں تک محدود نہیں رہے بلکہ ہر گھر اور بازار تک ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ اور ڈاکٹر منا جان کے قصے کہانیاں سنایا کرتے ہیں، میرے دیش کے لوگ۔ ڈاکٹر مان جان وطن کی مٹی سے جا ملے اور ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ آج بھی پہاڑوں میں بلوچ جوان سمیت پورے بلوچ قوم کے پرستی کررہے ہیں۔ مشکے کے پسماندہ ترین پہاڑی علاقہ میہی کا اللّٰہ نزر آج ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ( نوٹ: پیار سے لوگ انہیں واجو کا لقب دے چکے ہیں) استحصال زدہ قوتوں کے سامنے کھڑا ہوکر انہیں للکار رہے ہیں۔ مشکے شروع سے اپنے اندر بلند سپہ سالار سرمچاروں جنم دے رہا ہے اور انہیں اس دیش کیلئے فدا کر رہا ہے۔

بی ایل ایف، بی ایل اے اور بی این ایم کے اکثریتی لیڈران مشکے سے رہے ہیں جب بھی بی این ایم کی بات ہوتی ہے تو لوگ شہیدِ وطن ڈاکٹر منان جان کو بھول نہیں جاتے کہ انہوں نے بلوچستان کے کونے کونے تک کا چکر لگایا اور وہاں وہاں تربیت دیتا رہا۔۔مشکل ترین حالات میں عوام کے حوصلہ تھے، ڈاکٹر منان جان” ڈاکٹر منان جان کو زندہ ہونا تھا، لیکن وہ سمجھ چکا تھا کہ وطن کی آزادی کیلئے لڑنا بھی سرزمین پر ہونا اؤل شرط ہے۔ آج بھی گریشگ کا ہستپال انہیں کا منتظر ہے کہ جہاں وہ غریبوں کو علاج کرتے اور اسکول میں بچوں کو پڑھاتے وہ وہاں کوچہ نامی چھوٹی سی گاؤں میں رہ رہے تھے۔ کبھی مستونگ اور کبھی قلات جاتے۔۔ اور لوگوں کو اکھٹا کرکے انہیں قومی تربیت دیتے رہے۔۔ بی این ایم نے ایسے کہیں لیڈران جنم دے چکا ہے کہ جو اپنے بساط کے مطابق بہت کچھ کر چکے ہیں۔

بانسبت باقی بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کے بی این ایم کے فلیٹ فام سے جتنے اشخاص ابھر آئے یا آرہے ہیں ان میں ہر اک کی اپنی ایک دردناک کہانی بھی ہے۔ ہر اک کا زاتی سرمایہ اور مال و دولت سب اجتماعی زندگی کیلئے تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ کیچ سے لیکر ڈیرہ غازی تک ہر گھر میں قربانی دینے والا ہی ابھرے ہیں لیکن چند ایسے علاقے ہیں کہ جہاں گھر تو کیا بلکہ خاندان ہی استحصالی نظام کے شکنجوں میں جکڑ کر ان کے ایک سیاسی رشتہ دار کی وجہ سے پورا وہ خاندان ٹارگٹ ہوا ہے۔

ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ نے بندوق اٹھایا تو ان کے چالیس سے زیادہ لوگ مارے گئے، کہیں زندانوں میں ہیں، گھروں کو مسمار کردیا گیا اور جدید ہتھیاروں سے عام لوگوں پر حملے ہوئے۔۔ پورا میہی فوجیوں کا جنگی تجربہ گاہ بنا اور لوگ جو بچ گئے تھے وہ نکل مکانی کرکے در بہ در ہوئے۔

مشکے کے گردونواع جگہوں میں( ڈکٹر اللہ نزر بلوچ کے بعد جس شخص کا نام زیادہ لیا جاتا ہے وہ ڈاکٹر منان جان ہی ہے) ہر بچہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر منان جان کون ہے اور وہ کس لئے شہید ہوا ہے۔ میں بذات خود ڈاکٹر منان جان کو نزدیک سے بہت کم دیکھ چکا تھا پھر بھی کوئی انہیں اپنے قریب محسوس کرتا۔ ہمارے چھوٹے گاؤں میں ہر بچے کے لب پہ ڈاکٹر منان جان اور ڈاکٹر اللّٰہ نزر بلوچ ہی ہیں۔ چند سال پہلے بلوچستان کے ہر طرف جھنڈے لہرائے گئے، ڈاکٹر زندہ تھے لیکن آج کا صورتحال بہت مختلف اور خوفناک ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پورے مشکے کے گردونواع جگہوں کو تاراج کردیا گیا ہے۔ ہر گاؤں میں ایسا گھر نہیں دیکھ لیتے ہو کہ جس میں کوئی شہید نہیں ہوا ہو۔ آج مشکے تنہا، انتہائی افسردہ اور غمگین ہے لیکن شکایت نہیں کرتا کیونکہ اس نے اپنے اندر انسانی روحوں کا خوشبو سونگھا ہے۔

واضح ہے کہ” آزادی کا نعرہ قربانی چاہتا ہے۔ یہ آزادی کا نعرہ امن کیلئے ہوتا ہے۔ یہ اس امن کی طرح نہیں کہ جہاں کی مدنیات، قومی زبان، ثقافت اور دماغوں کی استحصالی ہوجاتا ہے بلکہ یہ انمول تحفہ تشدد کے بغیر ناممکن ہے۔ تشدد کا رستہ ایک ایسا رستہ ہے کہ جس پر شہیدوں کے خون سے پھول کھل رہے ہوتے ہیں۔۔ ڈاکٹر منان جان کے سیاسی پروگرامز کا مطلب یہی تھا کہ بلوچ اپنے وطن کیلئے قربانی کا جذبہ رکھیں اور پنجابی نوآبادکاروں کو جڑ سے اکھاڑ کر بلوچ ریاست کی بحالی کا سوچیں۔ ڈاکٹر سیاست کو ہر فرد کیلئے اہم قرار دیتے تھے۔

ڈاکٹر منان جان کا ایک قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر جب بھی ہمیں بندوق پکڑتے دیکھتا تو وہ بہت ڈانٹتا اور کہتا۔ بیٹا یہ بندوق اٹھانے والے بہت ہوتے ہیں لیکن اسے اٹھانے کیلئے پہلے پڑھنا، سمجنا اور سیاست کرنا پڑتا ہے، جاؤ اور سیاست کرو تب سے لیکر آج تک میں دنیا کی تاریخ اور سیاست پر طرح طرح کی کتابیں پڑھ رہا ہوں۔ ڈاکٹر واقعی ایک سیاسی رہنماء تھے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

یوم شہدائے مستونگ: ڈاکٹر منان اور ساتھیوں کی قربانیوں سے آزادی کی جدوجہد مزید مضبوط ہوچکی ہے۔ ڈاکٹر جلال

ہفتہ فروری 1 , 2025
بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے  وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ نے شہدائے مستونگ کی یاد میں بی این ایم شال کے مختلف سیلز کے مشترکہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر منان بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی قربانیاں آزادی کی جدوجہد کو مزید مضبوط کر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ