تحریر: میرک بلوچ

ہم اکثر چند منٹوں پر مبنی جنگ کی ایک چھوٹی سی ویڈیو کلپ دیکھتے ہیں اور ہمیں لگتا ہے کہ جنگ بس یہی ہے کہ چند سنگت آئے کیمپ پر حملہ آور ہوئے اور چند منٹوں تک گولیاں اور گرنیڈ لانچر کے گولے داغے اور پھر چلے گئے، اور اپنا اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں کہ فلاں جگہ پر غلط ہوا فلاں گولہ مورچے کو نہیں لگا فلاں گولی صعیح ہدف پر نہیں لگی، سنگت لاپروائی کر رہے تھے اگر ایسا کرتے تو بہتر ہوتا فلانہ فلانہ۔
لیکن ہم یہ نہیں سوچھتے کہ آخر اس حملے کی منصوبہ بندی کب کی گئی؟ کہاں کہاں سے سنگت بلائے گئے؟ اتنے سارے گولے اور گولیاں کیسے جمع کی گئیں اتنی اسلحہ کہاں سے آئی؟ کم اِز کم 60/70 سنگت اس مشن میں اکھٹا تھے ان سب کے رہنے کا کھانے پینے کا انتظام کیسے کیا گیا، حالانکہ ہم اپنے آپ کو دیکھیں کہ ہم دو تین لوگوں کے ایک دن کا صرف کھانے پینے کا کتنا خرچہ آتا ہے جبکہ وہ تو اتنے ہیں اور کیسے سنگت کہاں سے علاقے میں داخل ہوئے اور کیسے حملے کی شروعات کرتے ہیں؟
یہ سب ہم نہیں سوچھتے درحقیقت ہم یہ سوچھنے کے قائل ہی نہیں رہتے جب تک ہم خود بطورِ سرمچار جنگ میں شریک نہیں ہوتے جب تک یہ سب ہم پر نہیں گزرتی ہم اسکا تصّور نہیں کر سکتے، بس چند منٹوں پر مشتمل ویڈیو کلپ دیکھنے کے بعد آجاتے ہیں نظریہ جھاڑنے اور بات ایسے کرتے ہیں جیسے ہم گوریلا جنگ میں کمانڈر رہ چُکے ہیں۔
ایک چھوٹی چوکی کو قبضہ کرنا آسان نہیں ہوتا تو اتنے بڑے کیمپ کو قبضہ کرنا کیسے آسان ہوگا، اسکیلئے لاکھوں کا خرچہ آتا ہے، ہزاروں گولیاں چاہئے ہوتی ہیں، سینکڑوں گولے ہونے چاہئے اور کم اِز کم 100 کے قریب سنگت ہونے چاہئے اور اتنے سنگت اکھٹے کرنے کیلئے کتنا رِسک ہوتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ دشت کھڈّان حملہ بہت ہی خوبصورت انداز میں ہوا ہے جو نا صرف بی ایل ایف کی کامیاب حکمت عملیوں اور ساتھیوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے بلکہ اس حملے سے یہ بھی واضح ہو جاتی ہے کہ بی ایل ایف اب ایک بڑی قوت بن چُکی ہے جو دشمن پر کبھی بھی کہیں بھی شدت کے ساتھ حملہ کر سکتی ہے، اس حملے سے واضح ہوتا ہے کہ بی ایل ایف کے پاس نہ صرف اسلحے کا بڑا ذخیرہ ہے بلکہ جوشیلہ اور جنگجو گوریلاؤں کی ایک بڑی تعداد بھی موجود ہے جو انتہائی تربیت یافتہ ہیں۔
جنگ مزاق نہیں ہوتی اور گوریلا جنگیں باتوں سے نہیں لڑی جاتیں اس کیلئے محنت و لگن چاہئے اور سب سے بڑی بات قُربانی دینے کا جزبہ بھی ہونا چاہئے ہر طرح کی قربانی دینے کا، اور ایک عام شخص کو سرمچار بننے کیلئے سالوں کا وقت لگتا ہے، جب آپ جنگ میں شریک ہوتے ہیں تو جنگ کو صیح طرح سے سمجھ بھی نہیں پاتے آپ کو جنگ کو مکمل طور پر سمجھنے کیلئے کم اِز کم پانچ سال لگتے ہیں۔
جب تم کئی سال میدانِ جنگ میں گزارو گے ایک ایک کر کے جنگ کا ہر پہلو تمہارے سامنے آتا رہے گا تب تمہیں پتا لگے کا کہ جنگ ہوتی کیا ہے، تب تمہیں پتا لگے کہ جنگ محاذ بندوق تان کر گولیاں برسانے کا نام نہیں ہوتی، جنگ معاذ دشمن سے دوبدو لڑائی کا نام نہیں بلکہ جنگ میں بے شمار مسلے مسائل ہوتے ہیں، جنگ میں آپکو سب کچھ کھونا بھی پڑھتا ہے، جنگ کبھی بھی ہماری خواہش جیسی نہیں ہوتی جنگ میں فرمائشیں بھی نہیں ہوتی جنگ اپنا رُک خود کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف موڑ لیتی ہے اور ہم جنگ میں بس پیادے ہوتے ہیں جنہیں جنگ کی سمت جانا ہی پڑھتا ہے۔