
بلوچ سر زمین جس کی ایک تاریخی حیثیت ہے جس کے فرزندوں نے روایتی اور غیر روایتی جنگوں کے ذریعے دشمنوں کے خلاف اپنے سر زمین کا دفاع کیا۔ نواب محراب خان سے بلوچ خان نوشیروانی اور حمل جئیند سے لیکر موجودہ قومی جنگ بلوچ قوم کی اپنے سرزمین سے جمالیاتی محبت کی ایک مثال ہے۔
دشت کھڈان کا معرکہ بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سرمچاروں نے دس نومبر دو ہزار چوبیس کو سر انجام دیا اس جنگ میں روایتی اور غیر روایتی دونوں جنگوں کے ذریعے دشمن کی ایک بھاری تعداد کو ہلاک کیا گیا جبکہ نفسیاتی اور ذہنی طور پر دشمن کو مکمل مفلوج رکھ کر شکست سے دو چار کیا گیا ہے۔
بلوچ قومی جنگ جب اپنے عروج کو پھنچی تو اس میں مکران سے لیکر کوہ سلیمان تک ہر علاقے نے اپنا کردار ادا کیا اسی طرح دشت کی سر زمین نے بھی بلوچ قومی تحریک میں اپنے بہادر فرزندوں کے کردار کی وجہ سے اہم مقام پالیا ہے۔
دشت کھڈان جنگ میں سرمچاروں نے نہایت نزدیکی سے دشمن فورسز کے کیمپ کو شدید حملے میں نشانہ بنایا اور فورسز کو گھٹنے ٹھیکنے پر مجبور کردیا۔ یہ جنگ نہ صرف بلوچ قوم کے ذہن پر نقش رہیگی بلکہ دشمن کے ذہن کو بھی جھنجھوڑتا رہے گا کہ بلوچ قوم کی طاقت اتنی بڑھ چکی ہے کہ وہ دشمن کے کیمپ کے اندر اسکو شدید حملہ کرکے نشانہ بناتا ہے بلکہ انہیں ان کے کیمپ سے بھاگنے پر مجبور کرتا ہے۔
دشت کھڈان جنگ میں بی ایل ایف کے مختلف ٹیمز شریک تھے جن میں قربان یونٹ، انٹیلیجنس ونگ، اسپیشل آپریشن اسکواڈ، اسنائپر ٹیکٹیکل ٹیم شامل تھے جو بی ایل ایف کی جدید جنگی حکمت عملیوں کا ثبوت ہے۔
دشت کھڈان جنگ میں بی ایل ایف قربان یونٹ کے اہم رکن سنگت کیپٹن جمال بلوچ شہید ہوئے اور بلوچ تاریخ میں خود کو ہمیشہ کے لئے امر کرگئے۔