
کراچی بلوچ قوم کی قدیم اور تاریخی سرزمین ہے، جس کا ماضی شاندار اور ثقافتی ورثہ بے مثال ہے۔ لیکن انگریزوں کی سرپرستی میں پاکستان کے قیام کے بعد بلوچ سرزمین پر قبضے کی راہ ہموار کی گئی، اور اس کے ساتھ ہی بلوچ قوم کی تاریخ، ثقافت اور زبان کو مسخ کرنے کی منظم کوششوں کا آغاز ہوا۔
کراچی کو ان منصوبوں کا مرکز بنایا گیا اور پیپلز پارٹی کو بلوچوں پر مسلط کرکے اس قدیم شہر کو بلوچستان سے دور رکھنے کی سازش کی گئی۔ اس کے باوجود، خون، زبان اور ثقافت کا رشتہ ایسا گہرا اور مضبوط ہوتا ہے کہ اسے کسی سازش یا جبر سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رشتہ ایک اجتماعی درد اور شعور کا عکاس ہے جو پوری قوم کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔
بلوچ یکجہتی اور ثقافتی شناخت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور ورثے کو زندہ رکھیں اور ان کوششوں کا بھرپور مقابلہ کریں جو ہماری شناخت کو مٹانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
بی ایس او کی بنیاد ہو یا سیاسی تحریکیں، کراچی نے ہمیشہ ایک اہم اور تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ ہر مشکل وقت میں اس شہر نے بلوچستان کے سپوتوں کے ساتھ کھڑے ہو کر یکجہتی کا ثبوت دیا ہے۔
گزشتہ روز لیاری، کراچی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے پچیس جنوری کو دالبندین میں منعقد ہونے والے بلوچ نسل کشی کے یادگاری دن، بلوچ راچی مچی، کے سلسلے میں ایک شعوری پروگرام کا انعقاد کیا۔ تاہم، اس پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔ پروگرام شروع ہونے سے قبل ہی پولیس اہلکاروں نے خواتین، نوجوانوں، بزرگوں اور بچوں پر لاٹھی چارج کیا اور تشدد کا سہارا لیتے ہوئے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار شدگان میں سمی دین بلوچ، آمنہ بلوچ، فوزیہ شاشانی، بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ڈپٹی آرگنائزر لالہ وہاب اور دیگر مظاہرین شامل ہیں۔
یہ عمل سندھ حکومت کی ہدایت پر سندھ پولیس کی جانب سے ایک گھناونا اقدام تھا، جو ان کے جمہوریت کے کھوکھلے دعووں کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ بلوچ عوام کے جائز مطالبات کو دبانے کی کوششوں کا ایک اور ثبوت بھی ہے۔
کراچی کے بلوچوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سیاسی تاریخ کو مد نظر رکھ کر اپنی قومی سیاست، تاریخ، ثقافت کو محفوظ کرنے کے لئے اپنا اہم کردار ادا کریں جو ان کے اسلاف نے ہر دور میں ادا کیا ہے۔