تحریر۔ رامین بلوچ (حصہ پنچم)

اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اپنے تاریخ کے مختلف ادوار میں عروج و زوال کے کئی مرحلوں سے گزرچکے ہیں۔ بیسویں صدی میں یورپی قوموں کے حملوں اور غیر ملکی مداخلت نے چین کو بے حد کمزور کردیاتھا۔ برطانیہ کے ایسٹ انڈیا کمپنی نے چین کو افیم کی منڈی بناڈالی۔بنگال اور بہار میں افیم کی کاشت کرکے اسے چینی ایجنٹوں کے زریعہ چین سمگلنگ کیا جا تھا،تاکہ چینی قوم افیم کیعادی ہوکرامپرلسٹوں کے استحصالی ہتکھنڈوں سے بے خبر رہے۔
اگرچہ افیم کی تبادلہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو چینی مصنوعات ملنے کی وجہ سے اس کی دولت میں اضافہ ہوا، لیکن اس نے چین کو ہر طرح سے دیوالیہ کرکے اسے سیاسی،سماجی اور اقتصادی بحران میں دھکیل دیا۔ مالی بحران پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ چین میں دس ملین لوگ افیم کی عادی ہوگئے۔ افیم کی تجارت نے برطانوی ساہوکاروں کو دولت مند تو بنادیا،لیکن اس سے چینی عوام کی حالت قابل رحم انداز میں برباد ہوئی۔ اس سارے عمل میں فرانس، امریکہ، برطانیہ اور جاپان کے فوجی اور تجارتی اداروں نے باہم متحد ہو کر چین کے شہروں، بندرگاہوں اور دار الخلافہ پر قبضہ کرلیا۔ جس کی ردعمل میں (r Opium Wa)وار لڑی گئی۔ یعنی افیم کے تجارت اور غیر ملکی قبضہ کے خلاف چینی سیاسی قیادت نے مزاحمتی جنگوں کی اولین داغ بیل ڈال دی۔ اقتصادی بحران سے براہ راست متاثر ہونے والے کسان بھی منظم ہوئے،اور چین میں موجودہ بیرونی طاقتوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔اور اس کے علاوہ چین میں مختلف سیاسی اور مسلح تنظیمیں وجود میں آئی۔ جن کا مقصد غیر ملکیوں کو چین سے بے دخل کرنا تھا1912 میں ”سن یات سین“ کی راہنمائی میں ”نیشلسٹ ریپبلک پارٹی“ تشکیل دی گئی۔ جو یورپی طاقتوں اور جاپان کے خلاف سیاسی و مسلح مزاحمت کی بنیاد رکھی۔ اور اس سلسلے میں وہ اپنے طاقت بڑھانے کے لئے روس سے لینن اور سٹالن کے زریعہ سے سیاسی،فوجی اور معاشی مددلی۔ بعدازان نیشلسٹ ریپلک پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی مل کراشتراک عمل سے گزر تے ہوئے اپنی جدوجہد منظم کی۔جس میں چین کے راہنماء ”ماؤزے تنگ “”چیان کاٹی شیک“ اور چو این لائی نے اہم کردار اداکیا۔”ڈاکٹرسن یات سین“ کے وفات کے بعد انہوں نے مل کر”متحدہ نیشنل محاذ“ کا حصہ بن کر سرخ آرمی کی بنیاد ڈالتے ہوئے گوریلا جنگی طریقہ کار کو اپناتے ہوئے بیرونی افواج کے خلاف لڑائی لڑی۔
1936 اور1937 میں جاپان نے چین پر بے رحمانہ حملہ کئے۔ جو بدترین اور خونریز جنگی جرائم پر مبنی تھے یہ بھیانک قسم کی قتل عام تھی، جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ لیکن اس نشیب و فراز میں چین کی قومی جنگجو تحریک اور قومی مزاحمت کے قائد”ماؤزے تنگ“ جیسے راہنماہوں کی قیادت میں طویل المدتی مدافعتی اور قربانیوں سے سرشار جنگیں لڑی گئی۔ جوبلآخر جاپان سمیت دیگر نوآبادیاتی وبیرونی حملہ آوروں کی شکست کی باعث بنی۔ جس کے نتیجہ میں چین ماؤزے تنگ کی قیادت میں یکم اکتوبر1949 ایک آزاد ملک کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
انہوں نے بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کی آزادی کا اعلان کیا۔ لیکن وہ مسلسل اور طویل جنگ سے جسمانی و نفسیاتی طور پر کئی بیماریوں کا
شکار رہی۔ اس کی بیماری کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے اس کی جان نشینی کے لئے جوڑ توڑ شروع کیا، اور”لی شاہو چنگ“ کو اس کے لئے چنا یا
گیا۔ جو در اصل ماؤ کے نظریات کے کٹر مخالفین میں سے تھے۔ اورکہا یہ جا تاہے کہ اس نے ماؤ کو قتل کرنے کی منصوبہ کرلی تھی۔جسے بعد میں چینی سرکاری دستاویزات میں غداری کا لقب دیا گیا۔ لیکن وہ اسی اثناء میں حادثاتی طور پر ایک فضائی حادثہ میں ہلاک ہوگیا۔اور اس کے متبادل جان نشین ”چو این لائی“تھا لیکن کچھ لوگ چو این لائی کو ماؤ کے نعم البدل کے طور پر لانے کے بجائے ”ڈینگ ژیاؤ پنگ“کو ماؤ کا متبادل جانشین سمجھتے تھے۔ اس دوران”چو این لائی“ بھی وفات پاگئے۔ اور بعد ازاں طویل علالت کے باعث ستمبر 1974 میں ماؤ کی وفات ہوئی۔
چین کی سامراجی معیشت اور سیاسی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کے باعث یہ دعوی درست ہے، کہ چین اب روایتی سوشلسٹ ملک نہیں رہا۔اگرچہ چین کمیونسٹ پارٹی کے شکل میں یہ سوشلزم کی دعوی کرتے ہیں۔لیکن عالمی سطع پر اس کی سامراجی پوزیشن نے اس کے سوشلسٹ نظریات کی روایتی بیانیہ کو چلنج کرتاہے۔ چین کے ”بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ“ کا موازنہ بدنام زمانہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے کرنا بلکل بھی غلط نہیں ہوگا۔ (جاری ہے)