سیاسی مزاحمت اور ریاستی پابندیاں

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماؤں نے دشت مستونگ کے قبرستان میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کمیٹی 25 جنوری کو "یوم بلوچ نسل کشی” کے طور پر منائے گی۔ اس موقع کے لیے چاغی کے معدنیات سے مالا مال علاقے دالبندین کو منتخب کیا گیا ہے، جو ایٹمی میزائل تجربات سے متاثرہ بھی ہے۔

منعقدہ پروگرام کے انتظامات اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے مختلف اضلاع اور تحصیلوں میں جلسے اور ریلیاں منعقد کی جا رہی ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، صبغت اللہ شاہ جی، ڈاکٹر صبحیہ، اور سمی دین بلوچ مختلف علاقوں کا دورہ کرکے عوامی شعوری پروگراموں کا انعقاد کر رہے ہیں۔

آج ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے نصیر آباد کا دورہ کیا، جبکہ کوئٹہ زون میں ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا، جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ نیو کاہان کے شہدا قبرستان میں حاضری دے کر شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

ایک جانب بلوچ عوام اپنی آواز کو بلوچستان کے ہر کونے اور عالمی سطح پر پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ دوسری جانب ریاستی ادارے مختلف پابندیوں کے ذریعے دالبندین میں منعقدہ بلوچ راجی مچی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ریاست کی تشکیل کردہ نام نہاد بلوچستان حکومت نے ٹرانسپورٹرز کو گاڑیاں نہ نکالنے کی ہدایت دی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست ہر ممکن طریقے سے پروگرام کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ، دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے اکٹھا ہونے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

حکومت نے، ماضی کی طرح، خون خرابے کا ماحول پیدا کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں، جیسا کہ گوادر میں راجی مچی کو سبوتاژ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ ان تمام مشکلات کے باوجود، بلوچ عوام اپنی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہے ہیں۔

زرمبش نیوز کے باوثوق ذرائع کے مطابق، تفتان رائفلز کے کمانڈنٹ بریگیڈیئر غلام دستگیر، نام نہاد بلوچستان حکومت، ضلعی انتظامیہ چاغی، ضلعی چیئرمین ودود سنجرانی، ڈرگ مافیا، اور ڈیٹھ اسکواڈ سے وابستہ افراد نے دو روز قبل ایک خفیہ میٹنگ منعقد کی۔ اس اجلاس کا بنیادی موضوع بلوچ راجی مچی کے انعقاد کو روکنا تھا۔ اس کے علاوہ، نام نہاد وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی دالبندین آمد کے انتظامات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی، اور پروگرام کو حتمی شکل دی گئی۔

بلوچ راجی مچی کے سلسلے میں دالبندین میں مصروف کارکنوں کو ہراساں کرنے کے لیے درجنوں افراد کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالنا ریاست کے بدنیتی پر مبنی عزائم کو واضح کرتا ہے۔

ماضی میں عسکری قیادت کے حکم پر گوادر میں منعقدہ راجی مچی کو سبوتاژ کرنے کے لیے بلوچستان حکومت نے عوام پر تشدد کیا، فائرنگ کی، اور ظلم و بربریت کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ تاہم، ان تمام رکاوٹوں کے باوجود کامیاب راجی مچی نے ثابت کیا کہ بلوچ قومی آواز کو طاقت کے ذریعے دبایا نہیں جا سکتا۔

ریاستی ظلم و جبر اور پابندیاں بلوچ عوام میں مزید شعور اور بیداری پیدا کر رہی ہیں، جو قوم کی حقیقی طاقت ہے۔ جتنا ریاست طاقت کا استعمال کرے گی، عوام اتنی زیادہ تعداد میں سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے۔ بلوچ قومی جدوجہد کی یہ گونج نہ صرف بلوچستان بلکہ دنیا کے ہر کونے تک پہنچے گی، اور بلوچ عوام اپنی مزاحمت کے ذریعے انصاف کے حصول میں سرخرو ہوں گے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

نیشنل پارٹی کا دورہ چین ِ، غداری اور لوٹ مار کے معائدے

جمعرات جنوری 16 , 2025
تحریر۔ رامین بلوچ (حصہ پنچم) اس میں کوئی شک نہیں کہ چین اپنے تاریخ کے مختلف ادوار میں عروج و زوال کے کئی مرحلوں سے گزرچکے ہیں۔ بیسویں صدی میں یورپی قوموں کے حملوں اور غیر ملکی مداخلت نے چین کو بے حد کمزور کردیاتھا۔ برطانیہ کے ایسٹ انڈیا کمپنی […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ