ایران انٹرنیشنل کے مطابق محمد شیاع السودانی، عراق کے وزیرِاعظم، جو تہران میں مبینہ طور پر حشد الشعبی جیسے موضوعات پر گفتگو کے لیے پہنچے ہیں، نے کہا ہے کہ عراق شام کے عوام کی خودمختاری کا احترام کرتا ہے اور بغداد شام میں غیر ملکی مداخلت کے خاتمے کے لیے ایک جامع سیاسی حل چاہتا ہے۔

السودانی نے ۱۹ دی کو صدرِ دولتِ چهاردهم، مسعود پزشکیان کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہم نہیں چاہتے کہ ایسے تنازعات میں الجھیں جو خطے کے امن کو نقصان پہنچاتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عراق شام میں تمام فریقین کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے اور اس ملک میں پُرامن انتقالِ اقتدار کی حمایت کرتا ہے۔
السودانی نے اس بات پر زور دیا کہ بغداد اس حل کی حمایت کرتا ہے جس میں شام کے تمام گروہوں اور قومیتوں کی شرکت یقینی ہو۔
پریس کانفرنس میں پزشکیان نے کہا کہ دونوں ممالک شام کے مسئلے پر "مشترکہ تشویش” رکھتے ہیں۔
عراقی اخبار المدی کے مطابق، اطلاعات ہیں کہ السودانی نے ترکی کی ثالثی سے احمد الشرع (ابومحمد جولانی)، جو تحریر الشام کے رہنما ہیں، سے رابطہ کیا ہے۔
اخبار کے مطابق، عراق میں داعش کے خفیہ نیٹ ورک کی سرگرمیوں یا شام میں تنازعات کے پھیلاؤ کا خدشہ ابھی بھی موجود ہے۔
بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد مختلف رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ عراق میں ایران کی نیابت کار فورسز کو محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
السودانی کے تہران جانے سے ایک روز قبل، بغداد کے ایک باخبر ذریعے نے ایران انٹرنیشنل کو تصدیق کی کہ سپاہِ قدس کے کمانڈر اسماعیل قاآنی نے عراق کا دورہ کیا۔ اس دورے کا مقصد سپاہ پاسداران سے وابستہ مسلح گروہوں کے مستقبل پر غور کرنا تھا۔
اطلاعات کے مطابق، قاآنی کے دورے کا مقصد بعض مسلح گروہوں کو حشد الشعبی میں ضم کرنے یا تحلیل کرنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔
پریس کانفرنس کے دوران پزشکیان نے عراق کے ساتھ سیکیورٹی معاہدے پر عمل درآمد کے موضوع پر بھی گفتگو کی۔
یہ معاہدہ ۲۸ اسفند ۱۴۰۱ کو بغداد میں ایک تقریب کے دوران دستخط کیا گیا تھا، جس میں السودانی بھی شریک تھے۔
ایران نے خبردار کیا تھا کہ اگر معاہدے کی شقوں پر عمل نہ ہوا تو وہ خود کرد جماعتوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے گا۔
سپاہ پاسداران نے حالیہ برسوں میں عراقی کردستان میں ایرانی کرد جماعتوں کے ٹھکانوں پر کئی بار گولہ باری کی یا ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں۔