ایران کی موجودہ حکومت میں بارہا اس بات کی بازگشت سنی گئی ہے کہ دارالحکومت کو تہران سے ملک کے جنوب میں منتقل کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

حالیہ ہفتہ وار نیوز کانفرنس میں ایرانی حکومت کی ترجمان فاطمہ مہاجرانی نے دارالحکومت کی ممکنہ منتقلی کے حوالے سے کہا: "مکران کا علاقہ زیر غور ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ دو کونسلیں تشکیل دی گئی ہیں، جن میں سے ایک دارالحکومت کے مسائل کا جائزہ لینے کے لیے "اعداد و شمار” پر کام کر رہی ہے، جبکہ دوسری کونسل "سمندر پر مبنی معیشت” کے امکانات پر تحقیق کر رہی ہے۔
مہاجرانی نے وضاحت کی کہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، لیکن یہ بات طے ہے کہ نیا دارالحکومت "یقینی طور پر ملک کے جنوب میں” ہوگا۔
ایران کے پہلے نائب صدر محمد رضا عارف نے گزشتہ روز اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا:
"گزشتہ 30 سالوں سے دارالحکومت کی منتقلی پر بات ہو رہی ہے، لیکن اس بار سیاسی مرکز کو منظم کرنے کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ تہران میں خدمات کی محدودیت کی وجہ سے اس معاملے پر توجہ دی گئی ہے، اور مکران کو ممکنہ مرکز کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔”
عارف نے مزید کہا کہ مکران کے علاقے کی منفرد جغرافیائی حیثیت اور وسائل اسے دیگر مقامات پر فوقیت دیتے ہیں۔ ماضی میں دوسرے مراکز پر غور کیا گیا تھا، لیکن وہ پانی کی قلت اور دیگر مسائل کا شکار تھے۔
مکران کی اہمیت:
مکران، ایران کے زیرانتظام بلوچستان کا حصہ ہے، جو بندر عباس سے لسبیلہ (پاکستان) تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ ایک اہم اسٹریٹجک علاقہ ہے جو بحیرہ عمان اور بحر ہند سے منسلک ہونے کے باعث بین الاقوامی کھلے پانیوں تک براہ راست رسائی فراہم کرتا ہے۔
بی بی سی فارسی کے مطابق، مکران کا ساحل نہ صرف تیل و گیس کے وسیع ذخائر کا حامل ہے بلکہ زرعی اور ماہی گیری کے مواقع سے بھی مالا مال ہے۔ بین الاقوامی آبی گزرگاہوں کے قریب ہونے اور خلیج فارس کے کشیدہ ماحول سے باہر ہونے کے سبب اس علاقے کو جغرافیائی و سیاسی اہمیت حاصل ہے۔
چابہار بندرگاہ اس خطے کی معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ افغانستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے لیے سب سے محفوظ اور اقتصادی راستہ فراہم کرتی ہے۔ ایران اور بھارت نے چابہار کی شاہد بہشتی بندرگاہ کو لیس کرنے اور چلانے کے لیے 10 سالہ معاہدہ بھی کیا ہے۔
مقامی مسائل اور خدشات:
اگرچہ ایرانی حکام مکران کو ترقی دینے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن مقامی بلوچ آبادی اس پیش رفت کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ بلوچستان پہلے ہی اپنی شناخت، غربت اور معاشی بدحالی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ دارالحکومت کی منتقلی سے یہاں کے بنیادی وسائل پر مزید دباؤ پڑنے کا اندیشہ ہے۔
چابہار میں زمین کی قیمتیں پہلے ہی ملک بھر میں بلند ترین ہیں، جس کی وجہ سے مقامی آبادی ترقی کے ثمرات سے محروم رہ گئی ہے۔ اس سے وہی احساس پیدا ہونے کا خدشہ ہے جو گوادر میں پاکستان کی جبری ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے بلوچ عوام کے اندر پایا جاتا ہے۔
مقامی آبادی کا ماننا ہے کہ اگر مکران کو دارالحکومت بنایا گیا تو یہاں نمائشی ترقی کے نام پر غیر مقامی افراد کے لیے تجارتی اور تفریحی مراکز تعمیر کیے جائیں گے، جبکہ مقامی لوگوں کے معیار زندگی میں کوئی حقیقی بہتری نہیں آئے گی۔