افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے ایک آڈیو پیغام میں مذہب اور جدید تعلیم کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے معاشرے میں شدت پسند رویوں پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ ان رویوں کے باعث لوگوں کے دل مذہب سے بیزار ہو گئے ہیں۔

حقانی نے کسی مخصوص شخص کا نام لیے بغیر کہابدقسمتی سے، کچھ لوگ جان بوجھ کر اپنے سخت رویے سے مذہب اور مذہبی مکاتب کی شبیہ کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ مذہب اور دنیاوی تعلیم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور جدید سائنس اور مذہبی تعلیم معاشرتی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ "ان دو شعبوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے اور دونوں ایک متوازن اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر کے لیے ضروری ہیں۔”
یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب طالبان حکومت کو خواتین پر سماجی اور تعلیمی پابندیوں کے باعث شدید ملکی اور بین الاقوامی تنقید کا سامنا ہے۔
طالبان قیادت میں موجود نظریاتی اور حکومتی اختلافات بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ سراج الدین حقانی جیسے رہنما بین الاقوامی برادری کے ساتھ روابط کی حمایت کرتے ہیں، جبکہ ملا ہیبت اللہ کے قریب رہنما سخت اسلامی شریعت کی تشریحات پر زور دیتے ہیں۔
پاکستان میں بعض صحافی اور فوج کے حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس طالبان کے اندرونی اختلافات کو نمایاں کر رہے ہیں۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں کے بعد پاکستانی سیاستدان اور تجزیہ کار یہ مشورہ دیتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان طالبان اختلافات کو اپنے حق میں استعمال کرے۔