بلوچ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو5311 دن ہوگئے۔
اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ وطن پارٹی علی ظفر بلوچ اور رحمت مری دوستین مری اور مختلف فکر کے لوگوں نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے وائس چئیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جو سیاسی صورت حال ہے اس سے کوئی بے خبر نہیں اغوا کا یہ سلسلہ 1948 سے لیکر آج تک جاری ہے بلوچستان میں بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا ہونے کا خبر ملتا ہے ۔ لیکن اس سلسلہ میں جو تیزی 2000سے شروع ہوئی وہ آج تک جاری ہے اگر اس کا بالغور جاہزہ لیا جائے اس مسلے کو انٹرنیشنل کرائم کے ادارے اس کی تحقیقات کریں تو یہ بہت بڑی انسانی المیہ ہوگا جیسا کہ بلوچ فرزندوں کی اغوا اس وقت ہزاروں کی تعداد میں ہے ،جو غیر قانونی طریقے سے پاکستانی فوج سے اٹھا کر جبری طور غائب کرتی ہے۔
بلوچستان کے کونے کونے میں بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا ہوتے ہیں کوہلو ڈیرہ بگٹی نوشکی خاران تربت پنجگور اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے اب روز کی بات ہے کہ ہرگھر میں کسی کے بچے کو فوج سی ٹی ڈی ایف سی نےجبری اغوا نہ کیا ہو یہ سلسلہ پاکستان نے 1970 میں بلوچوں اور بنگلہ دیش کے ساتھ کی تھی ۔ جیسا کہ پاکستانی فوج جو نئی طرز عمل شروع کی ہے ۔ پاکستان کی نئی ڈاکٹرائن جو بلوچوں پر استعمال ہورہی ہے پر امن جدوجہد کو کاونٹر کرنے کے لیے مذہبی اور قبائلی طاقت کو استعمال کررہا ہے اس لیے اب نہتے بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا کی جو عمل ہے اس میں تیزی آئی ہے۔
ماما قدیربلوچ نے کہا کہ ساٹھ ہزار کے قریب بلوچ فرزندوں کو جبری اغوا کئے گئے مگر تاحال ان کا کوئی پرسان حال نہیں اس طرح انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف محکوم قوم کو ہم آواز ہوکر کھڑا ہونا چاہیے تاکہ اپنے عوام میں شعور آگاہی پیدا کرسکے اوردنیا تک اپنی پیغام پہنچا سکے ۔مقبوضہ بلوچستان میں بھی تشدد ہوتا ہے بلوچستان میں اس قوت کو اختیار دیا گیا ہے جوبلوچوں پر تشدد کریں اسے حکمران کی تاج بھی ان کے سر پر رکھتے ہیں بلوچستان میں حکومتوں کی تبدیلی پھر نئی حکومت لانا یہ تبدیلی جہد مسلسل کو روک نہیں سکے۔