ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ تھران سرحدی اور مشترکہ دریاؤں سے ایران کے آبی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکنہ اقدام اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔ اسماعیل بقائی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کے منصوبوں کے بعد سے یہ مسئلہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایجنڈے کا مستقل حصہ رہا ہے۔

ایرنا نیوز ایجنسی کے مطابق، افغانستان میں ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے ایک سوال پر ترجمان نے وضاحت کی وزارتِ خارجہ، جو ایران کی سفارتی کوششوں کی قیادت کرتی ہے، سرحدی دریاؤں اور ایران کے آبی حقوق کی فراہمی کو اپنے طے شدہ اہداف میں شامل کیے ہوئے ہے۔
انھوں نے کہا کہ دریائے ہریرود سے ایران کے آبی حقوق کی پیروی کی تاریخ 1390 ( شمسی ہجری سال ) کی دہائی کے اوائل سے شروع ہوتی ہے۔
بقائی نے ایک پریس کانفرنس میں کہا افغانستان کے اندر مختلف ڈیموں کی تعمیر کی منصوبہ بندی کے بعد، یہ مسئلہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ایجنڈے پر شامل ہوا، اور اس سلسلے میں ہمارے اعتراضات بھی ریکارڈ کیے گئے۔
ایران کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا جو پانی ہزاروں سالوں سے افغانستان سے ایران کی جانب بہہ رہا ہے، وہ دونوں ممالک کے لیے حقوق اور ذمہ داریوں کا سبب بنتا ہے۔
بقائی نے مزید وضاحت کی کہ ایران کے پاس بعض معاملات میں ’’ دستاویزات اور معاہدے ‘‘ موجود ہیں۔ انھوں نے زور دیا کہ روایتی بین الاقوامی قوانین، ماحولیاتی تحفظات، اور ’’ اچھی ہمسائیگی کے اصول‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے، اسلامی جمہوریہ ایران توقع کرتا ہے کہ طالبان حکومت اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔
ترجمان نے بتایا کہ کابل میں ایران کے سفیر علیرضا بیگدلی اس تنازعے کی پیروی کر رہے ہیں، اور تھران میں اس مسئلے کے حل کے لیے تمام دستیاب وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ایران کے مشرقی صوبوں، خاص طور پر بلوچستان ، کے لیے دریائے ہلمند پانی کی فراہمی کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں دریائے ہلمند پر افغان حکومت اور طالبان کی جانب سے ڈیموں کی تعمیر نے ایران اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام نے سلمہ، پاشدان، اور بخش آباد ڈیموں کی تعمیر کو خراسان رضوی اور بلوچستان کے نشیبی علاقوں کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔
1351 کے معاہدے کے مطابق، افغانستان دریائے ہلمند کے پانی کے حقوق میں ایران کو حصہ فراہم کرنے کا پابند ہے، مگر اس معاہدے پر عمل درآمد اب تنازعے کا سبب بن رہا ہے۔