شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) جبری لاپتہ افراد کی جدوجہد بلوچ قومی بقا اور قومی تحریک میں ایک اہم مقصد اور مطالبہ کی صورت اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ یہ اجتماعی سزا کی سخت ترین شکل ہے جس سے پوری بلوچ قوم متاثر ہے۔
ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے یہاں جبری لاپتہ افراد اور بلوچ شہدا کو انصاف کی فراہمی کے لیے قائم بھوک ہڑتال کیمپ میں کیا۔
آج بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5670 دن مکمل ہوچکے ہیں ۔جبری لاپتہ افراد کے لواحقین سے مستونگ سے آنے والے ایک وفد اور دیگر نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کیا۔ ان میں مستونگ سے خلیل احمد ، عبداللہ ، سلام ، نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات احمد لانگو شامل تھے۔
ماما قدیر نے توجہ دلاتے ہوئے کہا غیرضروری اور شخصی اختلافات جدوجہد کو کمزور کرتے ہیں ہمیں اپنے حقوق کے لیے بے مثال اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات جب سوشل میڈیا پر اچھالے جاتے ہیں ان کا منفی اثر دور تک پھیل جاتا ہے۔
انھوں نے کہا اس پر بحث نہیں ہونی چاہیے کہ کون بلوچ کے حق کے لیے مظاہرہ کر رہا ہے کیونکہ بلوچستان کی ہرگلی میں بلوچ کا خون بہایا جا رہا ہے۔ بے شمار بلوچ جبری لاپتہ ہیں اور خفیہ ادروں کے اذیت گاہوں میں ظلم سہ رہےہیں اکثر کے بارے میں وثوق سے نہیں کہاجاسکتا کہ وہ زندہ ہیں یا اجتماعی قبروں میں پھینک دیٸے گٸے ہیں اور ٹارگٹ کلنگ کاسلسلہ بھی جاری ہے۔
ماما قدیر نے کیمپ میں آئے ہوئے وفود کو قومی یکجہتی کے لیے کہتے ہوئے کہا قبائلی جھگڑوں کے نام پر بلوچ معاشرہ کو منظم طریقے سے تقسیم کیاجارہا ہے ہر جانب آک لگی ہوٸی ہے۔ لاکھوں بلوچ فوج کشی کے باعث اپنے گھربار چھوڑ چکے ہیں ریاستی ادارے اپنے مفاد کے لیے ہر گھر کو نشانہ بنا کر وہاں اپنے لیے سہولت کار پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا ریاست کی طرف سے اس طرح کی کوششیں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال کو مزید گھمبیر بناتی ہیں ، امید ہے کہ بلوچ قوم دوست قوتیں اور بلوچ قوم ان کا مقابلہ درست عمل و یکجہتی سے کریں گے۔