شام ( مانیٹرنگ ڈسک ۔ الجزیرہ ) شام مابعد بغاوت ‘‘ کے مصنف اور تجزیہ کار جوزف داہر کے مطابق، اسرائیل کی شام میں بڑے پیمانے پر بمباری کی مہم فوجی اور سیاسی دونوں مقاصد کا احاطہ کرتی ہے۔

داہر کا کہنا ہے کہ الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل شامی ریاست کو کمزور کرنے اور کسی بھی ممکنہ فوجی صلاحیت کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انھوں نے کہا: ’’ یہ ایک فوجی مقصد ہے، لیکن ساتھ ہی اسرائیل مستقبل کی حکومت کو ایک سیاسی پیغام بھیج رہا ہے۔‘‘

1974 کے بعد سے شام کی جانب سے اسرائیل پر کوئی حملہ نہیں ہوا، کیونکہ الاسد حکومت ہمیشہ اس بات پر توجہ مرکوز رہی کہ کسی بھی قسم کے فوجی تصادم سے گریز کیا جائے جو اس کی حکومت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ تاہم، داہر نے کہا کہ جمہوریت کے قیام کا عمل فلسطینی آبادی کے ساتھ یکجہتی کے مطالبات کو جنم دے سکتا ہے، جس کے نتیجے میں اسرائیل واضح اشارہ دے رہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی پیش رفت کو برداشت نہیں کرے گا۔

اسرائیل کی بمباری کی مہم اور مقبوضہ گولان کی پہاڑیوں کے قریب بفر زون میں زمینی دراندازی پر مغربی ریاستوں کا ردعمل غیر واضح رہا ہے۔ داہر نے اس خاموشی کو اسرائیل کو خطے میں استثنیٰ دینے کے تسلسل کے طور پر بیان کیا: ’’ یہ استثنیٰ اسرائیل کو نہ صرف اپنے بلکہ مغربی جغرافیائی سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کارروائی کرنے کی اجازت دیتا ہے۔‘‘
داہر نے پیش گوئی کی کہ اسرائیل ممکنہ طور پر شام کے اندر بفر زون کو بڑھانے کی کوشش کر سکتا ہے، تاہم، فی الحال دارالحکومت دمشق کی طرف اپنی فوجی موجودگی کو مزید بڑھانے کا امکان کم ہے۔

یہ تجزیہ اسرائیل کی خطے میں جاری حکمت عملیوں اور اس کے ممکنہ اثرات کو سمجھنے کے لیے مدد دیتا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جن کے تصاویری ثبوت بھی موجود ہیں ، لاذوقیہ میں شامی بحریہ کے جہازوں پر حملہ کر کے اسرائیل نے انھیں تباہ کردیا یہ ایک ملک کے خلاف کسی بھی حملہ آور کے بلا اشتعال کارروائیوں کی شدت کا اظہار ہے جو بقول اس کے اپنے مستقبل کو کسی ممکنہ حملے سے محفوظ کرنا چاہتا ہے۔