شال (پریس ریلیز ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سیکریٹری جنرل محمد رحیم ایڈووکیٹ نے جاری بیان میں کہاہے کہ مقبوضہ بلوچستان میں دہائیوں سے جاری فوجی آپریشن میں شدت لانے کے نئے منصوبہ ”عزم استحکام فوجی آپریشن“ جیسے بلوچ نسل کش عمل کو ترقی و خوشحالی کہنا پنجابی فوج اور پنجابی وزیراعظم کی استعماری ذہنیت اور پالیسیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ فوجی جارحیت کے ذریعے بمباری کرکے بلوچ آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے، بلوچوں کی مال مویشیوں اور اثاثوں کو لوٹنے، ان کے املاک کو تباہ کرنے، بلوچ نوجوانوں، بزرگوں، خواتین و بچوں پر تشدد کرکے ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرنے، بلوچ فرزندوں کو جبری لاپتہ کرنے، زیر حراست بلوچ فرزندوں کو قتل کرکے ان کی تشدد زدہ لاشوں کو پھینکنے اور جعلی مقابلوں میں بلوچوں کو قتل کرنے کے مجرمانہ اعمال کو پنجاب کے لوگ شاید ترقی و خوشحالی مان لیں لیکن بلوچ قوم اور عالمی رائے عامہ فوجی جارحیت اور آپریشن کے دوران جبر و تشدد کو ترقی نہیں بلکہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم مانتے ہیں۔
ایڈووکیٹ نے کہاہے کہ
کیا پنجابی عوام اور فوج نہیں جانتے کہ محکوم اقوام نے صدیوں پہلے استعماری قبضہ گیریت اور نوآبادیاتی لوٹ کھسوٹ کو ترقی و خوشحالی ماننے سے انکار کرکے تحاریک آزادی کے ذریعے اس ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا؟ دیگر محکوم اقوام کی طرح بلوچ قوم بھی 1948 سے ہی بلوچستان پر پاکستانی جبری قبضہ کے خلاف آزادی کی تحریک چلا رہی ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ
بلوچ قوم اور عالمی رائے عامہ نہ تو بلوچ تحریک آزادی کے مزاحمتی عمل کو دہشتگردی مانتے ہیں اور نہ ہی پنجابی فوج کی جارحیت کو ترقی و خوشحال کا عمل سمجھتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک آزادی اب اتنا توانا اور طاقتور ہوچکی ہے کہ اسے فوجی طاقت و تشدد کے ذریعے شکست دینا یا دبا دینا پنجابی فوج کے بس کی بات نہیں ہے۔ پنجابی عوام اور حکمرانوں کو جلد یا بہ دیر یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گا کہ امن، ترقی اور خوشحالی کا حصول صرف آزاد بلوچستان کے قیام کی صورت میں ہی ممکن ہے۔