شال (ویب ڈیسک، مانیٹرنگ ڈیسک )بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان سے اسلام آباد تک، ظلم کا چہرہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ شاید اب بلوچستان سے باہر رہنے والے افراد کو بھی ریاست کے فاشسٹ اور جابر چہرے کی حقیقت سمجھ آنے لگی ہے ،ان خیالات کا اظہار انھوں نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بیان جاری کرتے ہوئے کیاہے ۔
انہوں نے کہا ہےکہ اسلام آباد میں صحافی مطیع اللہ جان کی جبری گمشدگی، جھوٹے مقدمے میں گرفتاری اور پی ٹی آئی کے مظاہرین پر تشدد ظالمانہ پالیسیوں کا تسلسل ہیں ۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا یے کہ اگر ملک کے دارالحکومت میں، جہاں ہزاروں کیمرے اور میڈیا کی موجودگی ہے، ایسی کھلی زیادتیاں ہوسکتی ہیں تو بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں، جہاں نہ میڈیا ہے نہ انٹرنیٹ، یہاںظلم و بربریت کا تصور بھی خوفناک ہے۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان میں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے ، پھر انہیں جعلی مقابلوں میں قتل کرکے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے یا پھر جھوٹے مقدمات کے تحت گرفتاریاں ظاہر کی جاتی ہیں اس سب کے باوجود میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے مظاہرین پر گولیاں چلانے، قتل و زخمی کرنے اور سینکڑوں افراد کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ یہ واقعات ریاستی جبر کی واضح نشانی ہیں۔
انہوں نے بلوچستان میں جاری ظلم و ستم کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوادر میں بشیر بلوچ کو کئی مہینے جبری گمشدہ رکھنے کے بعد جھوٹے مقدمے میں گرفتار دکھایا گیا اور بعد میں اسے جعلی مقابلے میں قتل کرکے دہشت گرد قرار دیا گیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ اسی طرح تربت سے ڈاکٹر ظفر اور ان کے بیٹے سمیت متعدد افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا صرف گزشتہ ماہ 100 سے زائد بلوچ نوجوان جبری گمشدگی کا شکار ہوئے اور متعدد افراد کو قتل کیا گیا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء نے مزید کہاہے کہ ہم ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں کہ اس ریاست کے ظلم سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکتا۔ جو آج خاموش ہیں، کل ان کے گھروں کو بھی یہی ریاست آگ لگا دے گی۔
ماہ رنگ بلوچ نے آخر میں انسانی حقوق کی تنظیموں، میڈیا، اور سیاستدانوں کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہےکہ یہ المیہ ہے کہ بلوچ عوام کے مظالم پر کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔