شال : اظہار یکجہتی کرنے والوں میں مستونگ سے بلوچ کونسل کے سابقہ صدر خلیل بلوچ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کیمپ میں آکر اظہار یکجہتی کی احتجاجی کیمپ میں وی بی ایم پی
کے چیئرمین نصراللہ بلوچ، وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ اور کو آرڈینیٹر بانک حوران بلوچ موجود رہے اس موقع پر وی پی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ دھرتی اور بلوچ قوم کے دکھ درد اور صورت حال کو دیکھ کر شاید کوئی سنگدل انسان اپنے انسو روک پائے لیکن یہ بلوچ قوم ہے جو دکھ سہنے کے باوجود برداشت لیئے جارہی ہے اور اس برداشت کی آڑ میں کچھ لوگ ظلم کو برداشت کرنا بلوچوں کی مجبوری ہے۔
کیونکہ غلام قوم اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتا ہے تاہم بے بس اور غلام بلوچوں نے جرمہ کو اپنا کر دنیا کو یہ پیغام روز اول سے دے دیا کہ ہم غلامی کے طوق کو اپنی گردن سے نکالنے کے لیے ہر وقت پُر امن جد جہد کرتے رہیں گے اور جب بھی بہتر پوزیشن میں آئیں گے تو پھر دنیا کو دکھا کر ائیں گے ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ انقلا لہو اور جد جہد نے نہ صرف بلوچ قوم کو خواب غفلت سے بیدار کیا بلکہ بلوچوں کو بلوچ قومی تحریک کا حصہ بنا کر ایک روشن تاریخ رقم کی ہے دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جہاں بھی قوتی چلیں ان کی کامیابی عوام کی شرکت سے ہی ممکن ہوئی بلوچ جد جہد کو منزل تک لے جانے اور قومی ہدف کو حاصل کرنے کے لئے بھی عوامی حمایت اور تائید ضروری ہے۔ اور بلوچ عوام کو آگاہی دینا بلوچ سیاسی قوتوں کا فرض ہے لیکن بیان معاملہ الٹ ہے کہ سیاسی قوتیں قومی مفادات سے زیادہ ذاتی خواہشات کو ترجیح دیتی ہوئی نظر آرہی ہیں ؟
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان پر پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچ فرزندوں کی بیش بہا قر بانیوں کی وجہ سے بلوچ مسلہ بین الاقوامی سطح پر متعارف ہوا ہے۔ دنیا اب جان چکی ہے کہ پاکستان اور بلوچ کا رشتہ کیا ہے جس سے اب قبضہ گیر نے تشویش کا اظہار کیا ہے وہ اسے پاکستان کا اندونی مسلہ قرار دیتا ہے اور شروع دن سے یہیں پروپیگنڈہ کر رہا ہے کہ کہ چند ناراض بلوچ ہیں ہم ان سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ایک جانب بلوچ کا قتل عام بلوچوں کی خراشوں کو سنوکر کے ویرانوں میں پھینک دیتے ہیں۔ اور دوسری جانب مذاکرات اور ہتھیار پھینکنے اور غلامی قبول کرنے کا درس دے رہے ہیں