پنجاب اور کراچی میں طلباء کو اس لیے لاپتہ کیاجارہاہے کہ ان کا تعلق مسلح تنظیموں سے جوڑا جاسکے۔ رحیم ایڈووکیٹ

شال ( مانیٹرنگ ڈیسک ) بلوچ نیشنل موومنٹ کے سابق سیکرٹری جنرل رحیم ایڈووکیٹ بلوچ نے شوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‏اسلام آباد سمیت پنجاب اور کراچی کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بلوچ اسٹوڈنٹس کو محض ان کی بلوچ شناخت اور مقبوضہ بلوچستان سے تعلق کی بنیاد پر حراساں کرنا، ان کا پیچھا کرنا، پولیس تھانوں اور دفاتر میں انھیں طلب کرکے ان کے موبائل فونز کو چیک کرنا یا چھین کر قبضہ میں لینا، سوشل میڈیا پر ان کی سرگرمیوں کی جانچ کرنا، اغواء کرکے انھیں جبری لاپتہ کرنا، بلا ثبوت و جواز انھیں آزادی پسند بلوچ مسلح تنظیموں سے جوڑنے کی کوشش کرنا پاکستانی ریاست کی سوچی سمجھی پالیسی ہے۔

‏انہوں نے کہا ہے کہ بلوچ طلباء کے خلاف ایسے اقدامات کو پاکستانی ریاستی ادارے معمول بنانے کی کوشش کر رہی ہیں مگر بلوچ قوم اپنے بچوں کے ساتھ ایسے امتیازی سلوک کو کبھی بھی معمول کی کاروائی قبول نہیں کرتے۔ ریاستی اداروں کے ایسے اقدامات واضح طور پر بلوچ اسٹوڈنٹس کی نسلی پروفائلنگ ہے۔ یہ بلوچ طلباء کے ساتھ نسلی امتیاز اور نفرت کی ریاستی پالیسی کا مظہر ہیں۔

‏بلوچ رہنما نے کہا ہےکہ ریاستی اداروں کی ایسی بلوچ دشمن پالیسی سے طلباء کا ذہنی دباؤ میں رہنا، ان کی نصابی سرگرمیوں، امتحانی نتائج اور ذہنی صحت پر منفی اثر پڑنا یقینی بات ہے۔ ہر کوئی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ ہر وقت بلاوجہ طلب کیے جانے، پریشان کن سوالات پوچھے جانے، گرفتار اور جبری لاپتہ کئے جانے کی خوف کے سائے میں پڑھائی کرنا اور ذہنی سکون کے ساتھ رہنا کسی کیلئے ممکن نہیں ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کے ساتھ پاکستانی ریاستی اداروں کے اس امتیازی سلوک کا مقصد یہ ہے کہ طلباء تنگ آکر اپنا تعلیمی کورس ادھورا چھوڑ کر گھر بھاگ جائیں۔ کیونکہ قابض پاکستانی حکمران بلوچ نسل کشی کی ریاستی پالیسیوں اور جبر و استبداد کے خلاف بلوچ قوم، خصوصاً تعلیم یافتہ باشعور نوجواوں کی مزاحمت اور ان میں قومی آزادی کے بڑھتے جذبہ سے خوفزدہ ہیں۔

‏انہوں نے کہا ہے کہ جبری لاپتہ افراد میں سے چند ایک اگر بازیاب ہوتے ہیں تو بعض سادہ لوح بلوچ اطمینان اور شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ ایسے مواقع پر خوش یا شکر گزار ہونے کے بجائے ان کی جبری گمشدگی کے ذمہدار ریاستی اداروں کی احتساب اور انھیں سزا دلوانے کیلئے آواز اٹھانا چاہیئے کیونکہ بازیابی کے بعد جبری لاپتہ افراد کی جسمانی صحت شاید کسی حد تک بحال ہوسکے مگر ان کی ذہنی، نفسیاتی اور روحانی تندرستی کی بحالی ممکن نہیں ہے۔

‏انہوں نے آخر میں کہا ہےکہ جبری لاپتہ طلباء گمشدگی کے دوران جس ذہنی و جسمانی ازیت سے گزرتے ہیں کیا محض رہائی سے اس کا ازالہ ممکن ہے؟ کیا بازیابی کے بعد ان کے کلاس فیلوز، اساتذہ اور معاشرے کا رویہ ان کے ساتھ پہلے جیسا رہتا ہے؟ یقیناً ان سوالات کا جواب نفی میں ہے۔ عالمی قوانین کے تحت جبری گمشدگی، نسلی پروفائلنگ اور امتیازی سلوک انسانیت کے خلاف جرائم ہیں۔ بلوچ فرزندوں کے خلاف ایسے جرائم پر آواز اٹھانا، ریاست پاکستان اور اس کے متعلقہ سکیورٹی اداروں کو سزا دلوانے تک جدوجہد جاری رکھنا ہم سب کا قومی اور انسانی فرض ہے۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

نیدرلینڈز بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے 13 نومبر شہداء بلوچستان کی یاد میں پمفلٹ تقسیم

پیر نومبر 4 , 2024
نیدرلینڈز (اوتریخت) بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی جانب سے نیدرلینڈز کے شہر اوتریخت میں شہداء بلوچستان کی یاد میں ‏آگائی پمفلٹ تقسیم کی۔ اس مہم کا مقصد عالمی برادری کو بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، جبری گمشدگیوں اور ‏شہداے بلوچستان اور ان کی تاریخی قربانیوں سے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ