گْوادر یونیورسٹی پرفوجی قبضہ اور تین انتظامی سہولت کار (پہلی قسط) تحریر: ابرم مرید

بلوچستان میں کاؤنٹرانسرجنسی کے تحت فوجی تھینک نے تعلیمی اداروں کو قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چونکہ اسکولوں اور کالجز کے نسبت جامعات کو طلباء کی زہنی نشونماء کا مرکز سمجھا جاتا ہے اسی لیے فوجی تھینک ٹینک نے بلوچستان کے تمام جامعات باالخصوص جامعہ تُربَت اور جامعہ گْوادر میں پڑاؤ ڈال دیا ہے۔

ان دونوں تعلیمی اداروں میں براہ راست طلباء کی ہراسمنٹ اساتزہ کی پروفائلنگ کے علاوہ اب ہفتہ وار فوجی لیکچرز منعقدہوتے ہیں جہاں فوجی وردی میں ملبوس آفسر کلاس رومز کا دورہ کرکے طلباء کو لیکچر کے نام پر بلوچ جدوجہد سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔اتفاقیہ سمجھیں یا فوجی پالیسی کے ان دونوں تعلیمی اداروں پر براجمان انتظامی ذمہ داران ایک ہی سیاسی و علاقائی گروپ سے ہیں۔ پہلے دن سے سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث مشہور ہے کہ یہ لوگ فوجی مہرے ہیں جو بوقت ضرورت ان کو مختلف جامعات میں تعینات کیا جاتا ہے جبکہ اسکی عوض ان لوگوں کو طلباءکی پروفائلنگ اور بلوچ جدوجہد کو کاؤنٹر کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

گوادر یونیورسٹی علاقائی حوالے سے اس وقت اہم ترین اعلیٰ تعلیمی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔یونیورسٹی بننے کے بعد اچانک سے اس سہولیت کار گروپ کو یہاں تعینات کردیا گیا جن میں وائس چانسلر،پرو وائس چانسلر رجسٹرار سمیت چند نچلے پوزیشنز کے لوگ شامل ہیں۔ ان لوگوں کی تعیناتی بھی ایسے طریقے سےعمل میں لائی گئی کہ تمام تر ایچ ای سی رولز کے برخلاف اہم پوزیشنز سے ان کو نوازا گیا۔گْوادر یونیورسٹی ایک فوجی کیمپ کا شکل کیسے اختیار کرگیا؟ یونیورسٹی کے طلباء کو کیسے جی ایچ کیو بھیجا گیا؟ طلباء کو کس طرح سے ہراسمنٹ کا سامنا ہے ان تمام باتوں سے پہلے ان تین کرداروں کا جاننا ضروری ہے جو استاد کے لبادے میں فوجی سہولت کاری میں مصروف ہیں۔

وائس چانسلر ڈاکٹر رزاق صابر: مزکورہ پورفیسر اس سے پہلے تُربَت یونیورٹی میں بحثیت وائس چانسلر تعینات ہوا جہاں انہوں نے تُربَت یونیورسٹی میں طلباء کی سیاسی سرگرمیوں کو روکنے کیلئے فوج کی سہولت کاری کی۔نہ صرف طلباء کی ہراسمنٹ میں ملوث رہا بلکہ متحرک طالبعلموں کو ایف سی ہیڈ کوارٹرتُربَت میں طلب کرواکر انکو ڈرانے دھمکانے کے حربے استعمال کیے گئے۔

ڈاکٹر رزاق صابر کی مدت ملازمت تُربَت یونیورسٹی میں ہی مکمل ہوگئی اور وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔ چونکہ اس وقت گْوادر یونیورسٹی کی پہلی وائس چانسلر کی تقرری ہونے والی تھی اور اس اہم تعلیمی ادارے کی سربراہی کیلئے تین سینئیر ترین استادوں کے نام زیر غور تھے مگر اچانک راتوں رات گورنر ہاؤس نے ایک ریٹائرڈ سرکاری نوکر کو تین سال کیلئے وائس چانسلر تعینات کردیا۔چونکہ مزکورہ شخص فوج کی سہولت کاری کا تجربہ رکھتا تھا اس لیے اس اہم پوزیشن سے نوازا گیا۔اپنی تعیناتی سے لیکر آج تک اس شخص نے یونیورسٹی کو فوجی اڈہ بنانے میں سہولت کاری کی۔

یہ شخص اپنے عہدے کی لالچ میں اتنا گرا ہوا ہے کہ گوادر یونیورسٹی کے طلباء کو زبردستی جی ایچ کیو ٹریننگ لینے بھیجتا رہا ۔ انکار کرنے پر ایجنسی اہلکاروں سے طلباء زدو کوب کروایا گیا۔اس کے علاوہ یہ شخص فوجی وردی کے سامنے ناک رگڑ کر ہفتے میں ایک دفعہ یونیورسٹی ہال میں لیکچر منعقد کرواتا ہے جہاں آرمی کے آفسر آکر بلوچ جہد کے خلاف لیکچر دیتے ہیں۔ اکتوبر 2024کے پہلے میں رزاق صابر کی مدت ملازمت پوری ہوچکی ہے مگر فوجی جی حضوری اور سہولت کاری کے انعام میں اس شخص کو تاحیات وائس چانسلر بنادیا گیا۔

دوسرا اہم کردار پروائس چانسلر ڈاکٹر سیدمنظور بلوچ ہے۔ منظور بلوچ اس سے پہلے اوتھل یونیورسٹی میں ڈین فیکلٹی اور ڈی جی اسٹوڈنٹس آفیرز،ڈائریکٹر کوالٹی انشورنس سنٹر بھی رہ چکے ہیں۔ جبکہ صوبائی سیکریٹریٹ کوئٹہ میں بطور ڈائریکٹر پی این ڈی ڈیپارٹمنٹ بھی رہ چکے ہیں۔منظور بلوچ کا تعلق معروف بلوچ دشمن کردار ملا برکت کی فیملی سے ہے جبکہ موصوف صوبائی وزیر ظہور بلیدئی کا میڈیا انچارج و بندہ خاص بھی ہے۔

سیدمنظور بلوچ بلوچستان میں چین کی استحصالی پروجیکٹ سی پیک کے تھینک ٹینک میں شمار ہوتےہیں وزیراعظم پاکستان کے معاشی ماہرین کی ٹیم کا حصہ ہیں جبکہ اسلام آباد و بلوچستان میں سی پیک سے متعلق ایونٹ،آگاہی تقریبات کی میزبانی بھی کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں چائنہ کا کئی دفعہ دورہ بھی کرچکے ہیں۔سی پیک استحصالی منصوبے کو پروان چڑانے کی انعام میں منظور بلوچ کو نہ صرف گْوادر یونیورسٹی کا پرو وائس چانسلر تعینات کیا گیا بلکہ بغیر سنڈیکیٹ و بورڈ آف اسٹڈیز کی منظوری کے یونیورسٹی میں سی پیک اسٹڈی سینٹر بنا کر انکو اسکا چئیرمین بنا دیا گیا۔یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے بعد دوسرا اہم کردار منظور بلوچ ہے جن کا کام فوجی آفسران کو مدعو کرکے سی پیک جیسے استحصالی منصوبوں پر طلباء کی برین واشنگ ہے۔

اس گروپ کا تیسرا کردار رجسٹرار دولت بلوچ ہے جو منظور بلوچ کا کزن ہے دولت بلوچ ظہوربلیدی سے انتہائی قربت رکھتے ہیں اور اوتھل یونیورسٹی میں بطور لیکچرر ان کی کارستانی بھی عیاں ہیں۔ ان کو ایک عام لیکچرر سے گْوادر یونیورسٹی کا ایک سال کیلئے رجسٹرار تعینات کردیا گیا مگر گزشتہ تین سالوں سے اسی پوست پر براجمان ہے۔

ان کرداروں کا ذکر کرنے کا مقصد صرف بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں موجود ان فوجی سہولت کاروں کو عیاں کرنا ہے استاد کی بھیس میں اپنی وطن کی دلالی کرتے ہیں اور اس مقدس پیسے کو فوجیوں کی جوتوں پر رک کر چند مراعات کی خاطر طلباء کی پروفائلنگ کرواتے ہیں۔

(جاری ہے)

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

ہرنائی سے جبری لاپتہ اللہ رکھیا کو 6 سال ہوگئے ہیں بازیاب کیاجائے لواحقین کی پریس کانفرنس

پیر نومبر 4 , 2024
شال ( نامہ نگار ، مانیٹرنگ ڈیسک) لاپتہ اللہ رکھیا سمالانی بلوچ کی والدہ اور اہل خانہ نے شال میں 5626دنوں سے جاری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلے جاری کیمپ آکر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہاکہ یہ بات بلوچستان کے ہر ایک فرد کی علم میں ہے کہ گزشتہ دو […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ