( انسانیت کی پرورش، تخلیقی عمل میں قیادت کے وژن و بصیرت کا شعوری کردار)
جب سے بنی نوح انسانی صورت میں کرہ ارض پر کائینات الہی کی بصیرت سے ظہور پزیر ہوئی، جو یقیناّ وہ لاشعوری مخلوقات میں شمار ہوا کرتا تھا۔ جن کے مطالق تاریخی منصفان خضرات نے مختلف آراہیں اور روایات اپنے تحریروں کی زینت بنا کر تاریخ کے حصہ بنا لیے جو اُنھیں جینے اور زندگی گزارنے کی تخلیق کرنے کی عمل سے گزرنا پڑا جو کہ اپنے آپ شعوری عمل کی تخلیق کرکے وہ صرف ایک جاندار کی صورت میں اپنی زندگیوں کو ایک نئی سماجیت و نسلیت اور قومیت و لسانیت کی سانچے میں ڈھلتے ہوئے مختلف قومیت، لیسانیت اور نسل و رنگوں میں تشکیل پا کر قوموں، مہذب و فرقوں اور سماجوں میں تقسیم ہوئے اور اس ادوار میں جینے کی سلیقہ سیکھا جس کیلئے تعلیم اور ہنر کی ضرورتیں پورا کرنے کیلئےاکثر ریاستی ڈھانچہ اور انتظامیہ نظم وضبط کے ساتھ ریاست کی حکمرانی چلانے کیلئے ایک ایسی قیادت اور رہبر کی ضرورت بھی پیش آتی تھی جو مختلف قوموں کی یکجہتی اور شعوری و نظریاتی تربیت کرکے ریاست کی دفاع اور قومی شناخت کو برقرار رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوئے ایک طاقتور قومی ریاست کی تشکل کرکے اپنی قومی وجود و شناخت برقرار رکھ سکیں۔ مگر بلوچ وہ بد نصیب قوم ہے جو آج تک تاریخی صورت میں ایک متضاد قوم کی شکل مین آپنی پہچان کی جستجو میں سر گردان ہے اور بلوچ تاریخ دانوں کی غفلت اور دربادی سوچ کی وجہ سے آپنی شاندار ماضی سے غیر آشنا ہے اور ہماری کئ تاریخ کی چمپیں حضرات نے بلوچ قومیت کے ساتھ ساتھ بلوچ کے عظیم ہیروز میر چاکر خان اور نصیر نوری کو بھی تاریخ میں آپنے قلم سے متضاد بنا کر پیش کرچکے جو سامراجی استعصالی قوتوں کی خوشنودی کیلئے سر انجام دےچکے ہیں کچھ تحریروں میں بلوچ حاکمیت کو گیارہ بارہ ہزار سالہ تاریخ کی وارث ظاہر کرتے اور کوێیغیر اقوم کے دانشوروں نے بقول پروفیسر ڈاکٹر فاروقق بلوچ کے 1410 سے 1948 تک کی حاکمیت کی وارثیت بخشتی ہے۔مگر اس لمبی مدت میں کئی نامور درباری بلوچ دانشوار لکھاریوں نے کئی کتابوں کی منصب ہونے کی شرف پاکر بلوچ قوم کو تاریخی شناخت فراہم کرنے میں قاصر رہے ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھ میں وہ طاقت اور قابلیت نہیں ہے کہ میں عنوان بالا موضوع پر کچھ تحریر کرسکوں، کیونکہ مجھ میں وہ شعور یا علمی قابلیت نہیں اور نہ وہ الفاظ میسر ہیں جو اس تاریخی موضوع کو خوبصورتی عطا کر سکے۔ چونکہ مجھ سے کئی بہترین لکھاری و دانشوار، ادیب اور تخلیق کار اس جہان میں قدرت نے پیدا
کئے ہیں جنہون نے اپنی سرسری تحقیقات سے اس موضوع پر بہتر انداز میں شاہد قارئین کی معلومات کیلئے تحریر کر چکے ہیں، مگر پھر بھی آج مجھے میرا دل کچھ لکھنے پر اُکسا رہا ہے کہ آپ بھی قلم اٹھا کر کچھ لکھنے کی کوششیں کرین ۔اورآپنے کچھ تضادات قارہین کی گوشگزار کرسکوں۔
جو میرے اپنے ناکس معذور ذہنی اظہار کی صورت میں تحریر ہیں۔ بیشک پڑھنے والے حضرات میں کچھ لوگوں کو اس پر لکھنے اور تحقیق کرنے کی توفیق ہو جو بہتر انداز میں لکھیں اور پڑھنے والوں کی معلومات میں اضافہ کر سکیں کیونکہ ہر ایک لکھنے والے کی اپنا اپنا خیالات اور مارشت ہوتے ہیں جو قلم کی نوک میں لاکر اپنے آرزوِ دل سے سفید کاغذ کو رنگیلا بنا دیتے ہیں۔
میں بھی اپنے قلم کے ٹوٹے نب کو طاقت بخشا اور اس خوف کے عالم میں لکھنے کی کوششیں کر رہا ہوں کہ کہیں پڑھنے والے کچھ گالی تو نہ دیں کہ اس نادان بیوقوف بھی اپنے آپ کو لکھاری سمجھ بیٹھا ہے اور ہمارا قیمتی وقت ضائع کررہا ہے۔ مگر پھر بھی دل میں یہ آس لگا بیٹھا ہوں کہ شاہد کہیں کم از کم کچھ میرے طرح کہ نادان میرا حوصلہ افزائی کرلیں اور اس موضوع پر اپنی چشم مبارک کی شرف بخش دیں۔
ہاں! میرا چونکہ تحریر کی موضوع بلوچ قوم کی تشکیل اور سماجی کردار سے موسوم ہے، کیونکہ بلوچ قوم بھی بنی آدم سے تشکیل پانے والے اقوام میں سے ایک قوم کی شکل میں اسی سماج میں زندگی کی دہلیز میں وجود رکھتی ہےاور کئی ادوار سے مختلف نشیب و فراز سے گزر کر آج تک اسی سماج کی جبر و بربریت کا مقابلہ جوانمردی اور بہادری سے کر کے اپنی قومی شناخت وزبان کو برقرار رکھتی ہوئے جدیدیت کی طرف گامزن ہے۔ یہ اور بات ہے کہ کئی اقوم قدیمیت سے نکل کر جدیدیت میں بلوچ اقوام سے کئی سال پہلے اپنی قومی و سماجی شناخت پا کر اسی سماج میں طاقتور اقوام کی شکل میں اپنی پہچان رکھنے میں کامیاب ہوئے اور بلوچ قوم اسی عرصے میں بھی اپنی شناخت اور قومی پہچان کی جستجو میں لگا ہوا ہے۔ جس کی وجوہات آج تک بلوچ اقوام کی دہلیز تک نہیں پہنچا ہے۔ کئی تاریخوں میں پڑھا جاتا اور سینہ بہ سینہ سننے میں اکثر آتا ہے کہ بلوچ اقوام کی اس سماج میں ولادت گیارہ (11)یا 12 ہزار سال پرانا ہے۔جو مہرگڑھ کی آثار قدیمہ کی تحقیوں سے ثابت ہوتی ہے۔
میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ اتنی مدت کی اقوام کیوں سماج میں اپنی قومی شناخت برقرار رکھنے میں ناکام اور دوسری قومیں کامیابی سے ہمکنار ہوکر آج اسی سماج میں طاقتور باشرف اقوام کی روپ دار کر دنیا کے نقشے پر ظہور پزیر ہیں جس کو تاریخ کے مصنفوں کیلئے سوالیہ مارک بن چکا ہے، کیونکہ بلوچ قومی تاریخوں کی مختلف مصنف حضرات اکثر و بیشتر مختلف راہے رکھتے ہوئے بلوچ قومی تاریخ میں کنفیوژن اور تضادات پیدا کرکے بلوچ قوم کو مختلف اقوام کی نسلوں میں پیش کرتے ہیں آج تک میں نے بلوچ قوم کو بحیثیت نسلی بلوچ کے روپ میں کسی بھی مصنف اور دانشوروں کی تحریروں اور تحقیقاتی، کتابی معلومات کی روشنی میں نہ پڑھا اور نا دیکھ لیا ہے۔ اکثر بلوچ کو مختلف قومی نسلیں قرار دیکر بلوچ کی وجود کو تاریخی متضاد بنا کر بلوچ تاریخ کو مسخ کرچکے ہیں، ہاں ڈاکٹر پروفیسر فاروق بلوچ کی تحقیقات اور تحریر کردہ کتاب ” بلوچ و ان کا وطن“ میں بلوچ قوم کو بحیثت نسلاّ بلوچ قوم ظاہر کرکے سابقہ تمام تاریخی مصنفان کی نظریہ کو رد کر دیا ہے جنہوں نے بلو چ قوم کو آریائی یا حضرت حمزہ و قریش عرب قبیلہ یا دوسری مختلف اقوام کے نسلوں کی تسلسل سے جوڑ کر بلوچ اقوام کی نسلی حیثیت اور شناخت کو مسخ کرکے متنازعہ بنا چکے تھے۔ یہ بلوچ قومی بدنصیبی کہوں یا درباری دانشور اور مفاد پرست لالچی منصف حضرات کی غیر تعقیقاتی دانشوری جنہوں نے آج تلک بلوچ قومی نسل کو متنازعہ بنا کر بلوچ کو ایک نسلی قومی تاریخی کتاب کے اوراقوں میں ثابت کرنے میں ناکام ہو چکے یا اپنی آقاؤں کی درباری نظریہ اور درآمد شدہ دانشوروں کی غلامی کی رنگ میں ڈال کر سامراجی لکھاریوں کی سوچ کو اپنائیت بخشا جس سے بلوچ اقوام کی قدیم نسلی تسلسل کو پارہ پارہ کرکے مختلف نقالی داستانون میں ڈال کر مسخ کر چکے ہیں۔
جبکہ آثار قدیمہ سے ظاہر ہے کہ بلوچ قوم گبارہ ۱۲سالہ تاریخ رکھتا جس کو مھرگڑھ کی خوبصورت باطن میں دفنا گیا ہے جس کی جستجو کیلئے تاریخ کے لکھاریوں نے آپنے قومی شناخت کیلئےآ ثارقدیمہ کی سینہ چھیر کر بلوچ قوم جو ایک زبان ایک خوبصورت زمیں اور ثقافت کی وارث ہوتے ہوئے اپنی نسلی قومی پہچان سے قاصر ہے جیسے ہمارے نام نہاد تاریخ دانوں نے اپنے متضاد نظریہ سے بلوچ قومی اور ثقافت و شناخت کو داغدار کرکے دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بلوچ تاریخ ایسی درباری دانشوروں کو اپنی صحفوں میں ناکام اور قومی مجرم تصور کرکے نسل در نسل یاد کرینگے۔
میں بحیثیت ایک بلوچ اپنے تمام بلوچ دانشوروں اور لکھاری حضرات سے التجا کرتا ہوں کہ بلوچ قومی نسلی تاریخ پر حقائق کی ساتھ مزید تخلیقی جستجو کرکے بلوچ تاریخ کو جلا بخشے تاکہ تاریخی غلطیوں کی ازالہ ہو سکے اور بلوچ قوم اپنی نسلی وارثت پا سکے۔ میں نے زمانے طالبالعلمی کی ادواروں مین جب میر گل خان نصیر، شاہ محمد مری، اطو رام یا دوسری درباری لکھاریوں کے تاریخ بلوچستان کا مطالعہ کرچکا تھا تو میری ناکس ضمیر میں تضاد نے جنم لیا اور اسی تضاد یقین میں اس وقت بدل گیا جب میرے آنکھوں کے سامنے ڈاکٹر حمید بلوچ اور پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ کی تحقیقاتی کتابوں پر پڑی اور میں نے مطالعہ کرکے مجھے درباری لکھاریوں کے بارے مںیں اپنی تضادات کو جائز تصور کرنے پر مجبور ہوا۔
آفرین ہے ڈاکٹر حمید بلوچ جو اپنے کتاب تاریخ مکُران اور پروفیسر ڈاکٹر فاروق بلوچ اپنے مختلف تاریخی کتابوں میں دلیل کے ساتھ بلوچ نسلی شناخت مھر گڑھ کے باطن سے نکال کر تاریخی کتابوں کی زینت بنا کر بلوچ کو نسلی تاریخ دینے کی شرف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ اور ہمارے لکھاری درباری بن کر اپنی قومی تاریخ کو مسخ کرکے آج تک بلوچ قوم کو یہ معلومات دینے قاصر رہے ہیں کہ بلوچ ریاستی کی وجود کب اور کس ہیرو یا رہنما کی سر براہی میں ظہور پزیر ہوئی، اس ادوار میں کئی بلوچ ماؒوں نے آپنی باطن سے کئ باشعور و بہادر رہنما اور ہیرو شخصیات جنم دے چکی ہیں جنہوں نے اپنی قوم اور گلزمیں کی بقاء رسم ورواج اور شناخت کو برقرار رکھنے میں اپنے سے کئی گناہ طاقتور باہشاہوں اور استحصالی ریاستوں سے جنگیں لڑ کر اپنے جانوں کا نزرانہ دے چکے ہیں، مگر بلوچ قوم اور آنے والا نسلوں کو اپنے ریاستی شجرہ اور قومی ہستیوں کے مطالق تحریری موادوں کی صورت میں متضاد معلومات میسر ہونے کے سوا خقائق فراہم نہیں ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے معلوماتی سرسکلوں اور کہانیوں میں اپنی قومی رہنماؤں اور نامور شخصیتوں کے مطلق کوئی دیباچہ اور کتابیں کم میسر ہوتے ہیں اور وہ بھی تضادات سے برپور ہیں۔ اکثر وبیشتر ہماری شعوری سرکلوں اور تربیتی نصاب غیر اقوم کی رہنماؒں اور شخصیات کی کرداروں پر منصر ہوا کرتے ہیں بی ایس او کی ادوار سے لیکر حالیہ قومی تحریک تک ہمین بلوچ قوم کو آپنی ہیروین اور شخصیات کی کرداروں سے آشناہی میسر نا ہو ئے جس کی ذمہداری بلوچ داشوار لکھاریوں پرعاہد ہوتی ہے میرا گزارش ہے اپنے باضمیر لکھاریوں اور دانشور حضرات سے کہ بلوچ نسل کو آپنی ان ہستیوں کی غظیم کرداروں کے مطالق معلومات میسر کرنے میں ایک مثبت رول ادا کریں تاکہ آنے والی نسلیں اپنی رہنماوں کی کردار سے بیضیاب ہوسکیں با نسبتاً دوسری اقوام کی کارناموں سے۔ آپنی قومی شخصیات کی کرداروں سے آشنا ہوکر آپنی قومیت پر فخر کر سکیں ۔