بی این پی (بلوچستان نیشنل پارٹی) کی حالیہ سیاسی صورتحال اور اس کے اندرونی اختلافات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان شاہ جیسے سینیٹرز کی پارٹی سے انحراف کو محض حالیہ ووٹنگ یا آئینی ترمیم کے حوالے سے دیکھنا کافی نہیں۔ ان کے منحرف ہونے کی وجوہات زیادہ گہری ہیں اور اس کے پس منظر میں پارٹی کی قیادت کی غلطیاں، فیصلہ سازی میں مصلحت پسندی اور نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کرنے جیسے عوامل کارفرما ہیں۔
سب سے پہلے سینیٹ انتخابات کے وقت پارٹی نے جو غلطیاں کیں، انہیں سمجھنا ضروری ہے۔ نظریاتی سیاست اور اصول پسندی کی جگہ موقع پرستی اور مفاد پرستی کو ترجیح دی گئی۔ جہاں ایک تجربہ کار نظریاتی خاتون کارکن کو ٹکٹ دینے کے بجائے موقع پرست خاتون کو ترجیح دی گئی، یہ فیصلہ پارٹی کی سیاسی سمت میں کمزوری کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، جنرل نشستوں پر بھی سرمایہ دار اور ٹھیکیداروں کو اولین ترجیح دی گئی، جس کا نتیجہ ساجد ترین ایڈووکیٹ جیسے نظریاتی کارکن کی محض چند ووٹوں سے ہار کی صورت میں سامنے آیا۔
ساجد ترین کی شکست کے بعد پارٹی قیادت نے ان ناکامیوں کا صحیح تجزیہ کرنے کے بجائے ایک خاتون MPA کو پارٹی سے نکال دیا، جبکہ وہ دو افراد MPA جو اس ہار کے اصل ذمہ دار تھے، بغیر کسی احتساب کے پارٹی میں محفوظ رہے۔ انہیں سزا دینے کے بجائے اہم عہدوں سے نوازا گیا۔ یہ وہ فیصلے تھے جنہوں نے پارٹی کو کمزور کیا اور اندرونی اختلافات کو بڑھاوا دیا۔آج قاسم رونجھو اور نسیمہ احسان شاہ کی انحرافی سیاسی چالیں دراصل اس بڑی غلطی کی غماز ہیں جو پارٹی نے نظریاتی کارکنوں کے بجائے سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں کو ترجیح دے کر کی تھی۔ جب قیادت مفاد پرست افراد کو اہمیت دیتی ہے تو وہ اپنے کاروبار اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں، نظریات کو نہیں۔
یہی وہ وقت ہوتا ہے جب سیاسی جماعتیں اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں، اور یہی آج بی این پی کے ساتھ ہو رہا ہے۔بی این پی کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ اپنی نظریاتی بنیادوں کی طرف لوٹے اور حقیقی قوم پرستی کی سیاست کو اپنائے۔ پارٹی کو چاہیے کہ وہ پاکستانی پارلیمانی سیاست کے محدود اور موقع پرست نظام میں وقت ضائع کرنے کے بجائے بلوچ قوم اور سرزمین کے مفادات کو اولین ترجیح دے۔ بی این پی کی قیادت کو دوبارہ اپنے نظریاتی کارکنوں کو پارٹی کا حصہ بنانا چاہیے، کیونکہ ایک نظریاتی کارکن کا اصل اثاثہ اس کا نظریہ ہوتا ہے، جو کسی بھی سیاسی سمجھوتے سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
بی این پی کو اپنی صفوں میں نظم و ضبط اور پارٹی ڈسپلن کو برقرار رکھتے ہوئے حقیقی جدوجہد کی طرف لوٹنا چاہیے۔ اس کے لیے قیادت کو سخت فیصلے لینے ہوں گے، مفاد پرست افراد کو پارٹی سے نکالنا ہوگا اور نظریاتی سیاست کے اصولوں پر واپس آنا ہوگا، تاکہ مستقبل میں ایسے مزید انحرافات سے بچا جا سکے۔