نیا عمرانی معاہدہ نہیں ، صرف آزادی | 36 ویں سندھ کانفرنس سے بی این ایم چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ کا خطاب

ہمیں ہماری تاریخ سے جدا کر دیا گیا ہے۔ ہم ڈور سے کٹی پتنگ کی مانند یورپ میں اپنے ٹکڑے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں

خواتین وحضرات

شکریہ اپنے سندھی دوستوں کا جنہوں نے مجھے یہ اعزاز بخشا کہ میں بلوچ مزاحمتی تحریک کے ایک نمائندے کی حیثیت سے آپ کی مجلس میں شریک ہوں۔

سندھی قوم کی قدامت، موہنجو دڑو کی قدیم تہذیب، اور سب سے بڑھ کر سندھو دریا سے فیض یاب سرزمین کے باشندوں کے درمیان موجودگی میرے لیے باعثِ فخر ہے۔ آج ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں عالمی قوموں کی برادری میں ایک باوقار مقام پر اپنی قوم اور سماج کی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا لیکن ہماری قومیں (سندھی اور بلوچ) زخمی اور لہولہان ہیں۔ ہماری سرزمین ہم سے چھین لی گئی ہے، ہماری اجتماعی زندگی قابض کے رحم و کرم پر ہے۔ بحر بلوچ سے لے کر بلوچ کوہساروں کی طرح سندھ ساگر، سندھ کی سرزمین، سندھی تہذیب و ثقافت، اور سندھو دریا پر پاکستان قابض ہے۔ ہمیں ہماری تاریخ سے جدا کر دیا گیا ہے۔ ہم ڈور سے کٹی پتنگ کی مانند یورپ میں اپنے ٹکڑے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، ورنہ آج کی یہ مجلس موہنجو دڑو کے احاطے میں، آزاد سندھو دیش کی سرزمین پر، سندھی پگڑی باندھے منعقد ہو رہی ہوتی، اور میں پناہ گزین کی بجائے ایک ہمسایہ اور برادر ملک کے نمائندے کی حیثیت سے شریک ہوتا۔

تو یہ کیا ہی مجلس اور کیا ہی دیوان ہوتا، سندھی فنکار الغوزہ بجاتا، بلوچ فنکار بینجو کی دھن پر سماں باندھ دیتا، آپ مجھے سندھی اجرک سے نوازتے اور میں بلوچستان سے بزرگوں کی وفد کے ساتھ اسٹیج پر کھڑا ہو کر سندھی بلوچ مشترکہ مفادات کے لیے بلوچ دانش کا تہنیتی پیغام پیش کرتا۔ لیکن افسوس، یہ سب باتیں ہیں، بکھرے خیالات ہیں، ادھورے خواب ہیں، جنہیں حقیقت میں ڈھالنے کے لیے ہم فرنگی کی سرزمین پر اکٹھے ہو چکے ہیں۔

کیوں؟

اس "کیوں” کے جواب کے لیے لمبی چوڑی تقریر یا راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نوآبادی ہیں، ہم غلام ہیں۔ ہماری ہستی ہماری نہیں، ہماری سرزمین ہماری نہیں، ہمارے اختیارات ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہیں۔ ہم بکھرے، پسے ہوئے لوگ ہیں، خوابوں کے سوداگر ہیں۔ وہ سندھ، جو مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی سرزمین تھی، آج مذہبی شدت پسندی کے عفریت کا شکار ہو چکی ہے۔ سندھ کی وسائل سندھی کی نسل کشی کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ سندھی مائیں اور بلوچ مائیں اپنے بچوں کے غم میں آنسو بہا رہی ہیں جبکہ سندھی نوجوان پاکستانی فوج کے ٹارچر سیلوں میں ڈرل مشین سے چھلنی کیے جا رہے ہیں۔

آج یہاں سینئر اور وطن کے درد سے سرشار لوگ بیٹھے ہیں، اور ہم اپنی آنکھوں سے ان ممالک کی ترقی اور انسانی فلاح کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں یہ سب کسی نے تھالی (پلیٹ) میں پیش نہیں کیا۔ مغربی اقوام نے دو جنگ عظیم کا سامنا کیا، کروڑوں انسانوں کا خون بہایا گیا، یورپ نے اپنے تاریک دور کا مشاہدہ کیا۔ وہ ہم سے بھی بدتر حالات سے گزرے، تو دوستوں، ہمیں حقیقت پسند بن کر سوچنا ہوگا۔ آج جو یورپی اقوام ترقی کی بلندیوں پر فائز ہیں، وہ مختلف اور مشکل راستوں سے گزری ہیں، اور ہمیں بھی نہ چاہتے ہوئے انہی راستوں پر خون کی ندیاں پار کرنی ہوں گی۔ ہمیں زیادہ قوت سے چیخنا اور چلانا ہوگا، زیادہ دکھ سہنے پڑیں گے، کیونکہ ہمارا دشمن زیادہ سفاک ہے۔ ہماری دشمن کی فوج ایک مذہبی جنونی درندہ ہے، جو ہماری نسل کشی کو اپنے ایمان کی بقا سمجھ کر کر رہی ہے۔

دشمن ہمیں ہماری فطرت اور مزاج سے کاٹنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ یہ جتانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آزادی کی مانگ کرنے والے ترقی و تعمیر کے دشمن ہیں، کہ یہ تخریب کار ہیں۔ اگر ایسا ہوتا، تو برطانیہ عظمیٰ جیسا ترقی یافتہ ملک ہندوستان کو ترقی کیوں نہ دے سکا؟ ہندوستان اور نام نہاد پاکستان اپنی آزادی پر فخر کیوں کرتے ہیں؟ اگر قابض ترقی دے سکتا تو برطانیہ، جو کہ سائنس اور جدیدیت کے میدان میں دنیا کے سب سے ترقی یافتہ معاشروں میں سے ایک تھا، ہندوستان کو ترقی کیوں نہ دے سکا؟

میرے گزارش کا مقصد یہ ہے کہ دشمن ہماری جدوجہد کو دبانے کے لیے ہر ممکن حربہ اختیار کرے گا۔ وہ ہماری شناخت کو مٹانے، ہمارے ارادے کو توڑنے اور ہماری تحریک کو ناکام بنانے کے لیے مختلف طریقے آزمائے گا۔ لیکن ان تمام حربوں کے مقابلے میں ہمیں ثابت قدم رہنا ہوگا کیونکہ ہماری تحریک حق کی بنیاد پر ہے اور حق کو دبایا نہیں جا سکتا۔ ہمیں اپنی قوم اور سماج کو یہ حقیقت سمجھانا ہوگی کہ غلامی میں نہ ترقی ممکن ہے، نہ عزت، اور نہ خوشی۔ غلام کبھی اپنی تقدیر کا مالک نہیں بن سکتا اور نہ ہی اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے۔

ہمیں ان لوگوں کی، ان نام نہاد قوم پرستوں کی حقیقت بھی بے نقاب کرنی ہوگی جو ظلم و جبر، اور تشدد کو محض کسی ایک حکومت یا چند افراد کا عمل قرار دیتے ہیں، درحقیقت یہ جبر ایک پوری ریاست کا فیصلہ ہے جس کا مقصد قوموں کو غلام رکھنا اور اپنے استحصالی ہتھکنڈے جاری رکھنا ہے۔ ہمیں ان سیاستدانوں کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا جو پاکستانی ریاست کے فریم ورک میں رہتے ہوئے نئے معاہدات اور اصلاحات کا دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غلامی کے نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، ہماری غلامی میں ان کا حصہ اور مفادات ہیں، اس لیے وہ اسے ایک نئی شکل میں پیش کر رہے ہیں، جبکہ اصل مسئلہ قومی سوال و قومی آزادی کا ہے، نہ کہ محض حکومت یا قانون میں تبدیلی کا۔

کچھ سینئر سیاستدان ہمیں ایک نئے عمرانی معاہدے کا جھانسہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں، شاید سندھ میں چرچا زیادہ ہو رہا ہوگا۔ یہ استحصالی نظام کو برقرار رکھنے کا ایک نیا طریقہ ہے لیکن ہمیں ثابت قدم رہ کر اپنی قوم کو یہ سمجھانا ہوگا کہ اس دھوکے میں نہ آئیں، کیونکہ غلامی کے کسی بھی نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی جب تک کہ آزادی اور خودمختاری حاصل نہ ہو۔

دوستو، مجھے کہنے کی اجازت دیں کہ سندھی قوم کا مسئلہ بھی، بالکل بلوچ قوم کی طرح، انسانی حقوق کا نہیں بلکہ قومی آزادی کا ہے۔ غلام قوموں کے لیے انسانی حقوق کا کوئی تصور نہیں ہوتا کیونکہ غلامی کی حالت میں حقوق کی بات محض ایک فریب بن جاتی ہے۔ غلام صرف غلام ہوتا ہے اور اس کی زندگی کی کوئی بھی تشریح اس کی حقیقت کو مسخ کرنے اور اس کے استحصال کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ جب تک قوم آزاد نہ ہو، تب تک انسانی حقوق کا مطالبہ کرنا زخموں کی صرف سطح پر مرہم لگانا کے مترادف ہے، اصل مسئلہ ان جراثیم کا ہے جو زخم کے بنیادی أسباب ہیں۔ ہمیں مرہم کے بجائے جراثیم کش ادویات و مرض کو سرجری کرکے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

سندھی اور بلوچ خطہ آج سراپا درد بن چکا ہے، لیکن ہم مایوس نہیں ہیں۔ ہماری قومی سمت درست ثابت ہوئی ہے، اور آج دنیا کے سامنے، ہماری قوم کے سامنے، پاکستانی جبر ننگا ہو چکا ہے۔ جب ریاست تشدد کا راستہ اختیار کرتی ہے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ محکوم قوم، اگرچہ بظاہر زیر دست نظر آتی ہے، لیکن حقیقت میں ریاستی عسکری خوف کو شکست دے چکی ہوتی ہے۔ آج لوگ باہر نکل رہے ہیں، اپنی آوازیں بلند کر رہے ہیں، اور مزاحمت اب عوامی نفسیات کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ یہی ہماری فتح ہے۔

دشمن اپنے تشدد کے ذریعے اپنی شکست کی بیج بو رہا ہے۔ اسے وقت لگ سکتا ہے، لیکن سچ یہی ہے کہ شکست باطل کا مقدر ٹھہر چکی ہے، اور آخرکار جیت مٹی اور مٹی کے حقیقی وارثوں کی ہوگی۔
دوستو

آج بلوچ قوم کا فیصلہ اٹل ہے اور ہماری منزل آزادی ہے۔ ہم بارہا اتحاد کی باتیں کرتے ہیں، میں اتحاد کی فیوض و برکات سے بخوبی واقف ہیں، لیکن ہماری اتحاد کی جڑیں ہمارے عمل میں پنہاں ہیں، جب ہمارا عمل اور ہماری منزل ایک واضح راستے پر متعین ہوں گے تو عمل کے میدان میں اشتراک اور دکھ درد بانٹنا فطری عمل بن جائے گا۔ اس وقت شاید ہمیں ان سب باتوں کے لیے تقریروں کی بھی ضرورت نہ پڑے۔

میں ایک بار پھر اپنے سندھی دوستوں کا اس اعزاز اور شرف کے لیے تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بطور مظلوم اور محکوم قوم کے نمائندے کے، آپ مجھے ہمیشہ اپنی صفوں میں پائیں گے۔ ہمارا سفر جاری ہے، اور ہم اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیں گے۔

آزاد بلوچستان زندہ باد
آزاد سندھو دیش زندہ باد

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

Next Post

کوہلو: مقامی صحافی موسیٰ جان مری لیویز کے ہاتھوں گرفتار صحافی برادران، کی مذمت

پیر اکتوبر 14 , 2024
کوہلو ( نامہ نگار )کوہلو پریس کلب کی جانب سے جاری بیان میں کہاگیا ہے کہ گزشتہ روز نیشنل پریس کلب کے ممبر صحافی موسی جان نے لیویز فورس نا اہلی و ناکامیوں کا پردہ فاش کیا تو بجائے اپنی فورس کی کمی کوتاہی دور کرنے اور اسے بہتر کرنے […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ