دنیا میں دو قسم کے لوگ مُسلّح رہتے ہیں اور ہتھیارِ جنگ کو اپنا زیور سمجھتے ہیں ، دِکھنے میں ایک جیسے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ان دونوں قسموں میں کروڑہا درجہ فرق پایا جاتا ہے ،پہلی قسم وہ جو ایک ظاہری رعب و دبدبہ کے حصول و چند کوڑیوں کو پانے کیلئے کچھ عناصر کا آلہ کار بن کر قتل و غارت، ظلم و بربریت کو اپنا شعار بناتی ہے جس میں اسکے متعلقین کے سوا سب لوگ اسکے لئے حشرات الارض کی مانند ہوتے ہیں جنکو روندنا ، اور لقمہ اجل بنانا اسکے مشغلوں میں سے ایک اہم مشغلہ قرار پاتا ہے ، اب اس قسم کی مزید دو قسمیں ہیں، ایک ڈکھیتی، و غنڈہ گردی جسکا منشاء پیسے کا حصول اور لوگوں کے دلوں میں اپنا رعب بٹھانا کہ کوئی بھی انسان بآسانی انکے خلاف اٹھ کھڑا نہ ہو ، مگر اس حصے کا دائرہ کار اتنا وسیع نہیں ہوتا، کیونکہ یہ اپنے بل بوتے پر دھشتگری میں ملوث ہوتے ہیں اور کہیں پھنس جانے کی صورت میں حکومت کے حفاظتی اداروں کو رشوت دے کر خود کو حکومت کے شکنجے سے چھڑاتے ہیں ، ان لوگوں کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں ایک خاص قسم کی نفرت پائی جاتی ہے ،دوسری قسم جسکو حکومت وقت تشکیل دیتا ہے ، جسکا مقصد عوام کو بدامنی کے مسئلے میں اُلجھائے رکھنا تاکہ وہ اپنے بنیادی حقوق کو فراموش کرکے صرف امن کی تلاش میں رہے جسکے لئے اسے اپنے حقوق سے دستبردار ہونا پڑے تب بھی وہ اس سے دریغ نہ کرے، اور حق کی بات کا اظہار کرنا اسکے لئے زہرِ قاتل کے گھونٹ کو پینے سے بھی مشکل ہو، اس قسم کو پسِ پردہ مقتدر قوتوں کی جانب سے دھشتگردی کے عوض مال کثیر دیا جاتا ہے اور عام تاجر عوام سے لئے گئے بھتہ خوری کے پیسے الگ رہے،اس گروہ میں عام طور پر ان لوگوں کو بھرتی کیا جاتا ہے جو دنیاوی حیثیت سے رعب و دبدبہ رکھتے ہیں ج
نکی بات کئی حلقوں تک سنی اور مانی جاتی ہے چاہے وہ ماننا اپنی مرضی سے ہو یا بزور بازو منوایا جائے ، اس گروہ کا دائرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے ، کسی جانب قتل و غارتگری سے تو کسی سمت ظلم و جبر اور شدت سے اور کہیں بھتہ خوری اور ناجائز ٹیکس سے اپنا لوہا منواتے ہیں ، اور اگر ان میں سے کوئی قتل ہو تو اس کو شہید ملت کا لقب دیکر سلامی دی جاتی ہے مگر عوام کے دلوں میں اس گروہ کے لئے نفرت کی کوئی حد نہیں ہوتی جسکا اظہار چند گنے چنے لوگ کرتے ہیں اور جو اظہار نہیں کرتے وہ بھی اس گروہ کے لئے پہاڑوں کی مانند نفرت اپنے سینوں میں لئے پھرتے ہیں کیونکہ ظلم اور ظالم سے نفرت عین فطرت ہے ،مسلح لوگوں کی دوسری قسم وہ ہے جو بلا امتیاز رنگ و نسل ، بلا عوض مال و متاع ، بلا طلب جاہ و جلال محض مظلوموں کی حمایت کی خاطر اور ظلم کے سد باب کیلئے سہولیاتِ زندگی کو ترک کرکے دھرتی کی محبت کو محبوب کی محبت پر ترجیح دیتے ہیں اور معشوق کے جھومر سے زیادہ انہیں انکے سینے سے لٹکی ہوئی گولیوں کا ہار محبوب رہتا ہے ، کیونکہ وہ حقیقی آزادی ہی کو مقصدِ حیات سمجھتے ہیں جسکی راہ میں پیش آنے والی ہر ناگواری کو بخوشی قبول کرتے ہیں اور اس راہ میں ملنے والی شہادت کو اپنی سعادت سمجھ کر سینے سے لگا لیتے ہیں
یہ گروہ وہ عظیم ترین گروہ ہے جو ہر مخلوق کی دعاؤں کا مسکن ہے ، ہر شعبہ ہائے زندگی سے منسلک لوگ اس گروہ کے ہر فرد کو اپنا حقیقی ہیرو سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ یہ صرف اور صرف ظالم کے دشمن ہیں اور ظالم ہی کے سامنے ڈٹے رہتے ہیں ، اس ظلم کے خاتمے کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے ،اور انہیں بھتہ، پیسے ، مراعات نہیں دئیے جاتے بلکہ ریاستی دھشتگردوں کی نظر اس منظم و منصف گروہ کے خاتمے پر ہوتی ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ گروہ تو شجر با ثمر ہے پھلنا اور پھولنا اس گروہ کا خاصہ ہے ، یہ گروہ اپنے آپ کو اس دھرتی سمیت اسکے باسیوں کے جان و مال کا حقیقی محافظ سمجھتا ہے ۔اس گروہ میں اور دھشتگردوں کے گروہ میں ایک واضح فرق یہ بھی ہے کہ یہ قبضہ گیر نہیں ، یہ اپنے خطے سے باہر نکل کر کسی اور خطے کو نشانہ نہیں بناتے بلکہ جو سرکاری دھشتگرد انکے خطے میں لوٹ مار اور ناجائز تسلّط کی غرض سے آئے ہوئے ہیں انکو وقتاً فوقتاً نشانہ بناتے ہیں ، انکا ہدف اپنی دھرتی کو اس ظلم و جبر اور تسلّط سے نجات دلوانا ہے جسکے لئے وہ دشمن کو کاری ضربیں لگاتے رہتے ہیں
جسکا وہ اظہار بھی نہیں کر پاتا، چونکہ یہ اس دھرتی کے باسی اور حقیقی محافظ ہیں سو انکو اس خطے کے دشت و جبل اور صحرا غرض ہر کونے سے خوب واقفیت حاصل ہے جسکی وجہ سے دشمن اپنی پوری کوشش اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود ان تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا ، چنانچہ وہ عام آبادیوں ، معصوم بچوں ، عورتوں بوڑھوں اور نہتے لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں جس میں کچھ کو موقع پر شہید کر دیتے ہیں کچھ کو جبری گمشدگی کا نشانہ بناتے ہیں جو کئی سالوں تک انکے چھوٹے چھوٹے اندھیرے کمروں میں بند رہنے اور ظلم سہنے کے بعد اپنے گھر والوں کے پاس مسخ شدہ لاشوں کی شکلمیں پہنچتے ہیں اور جو ان میں زندہ بچ کر آتے بھی ہیں تو دماغی توازن و بشری صلاحیتیں کھو چکے ہوتے ہیں ۔اب اس تحریر سے ہر ذی عقل و شعور انسان ”دھشتگردی اور آزادی کی جنگ میں فرق “ بخوبی جان سکتا ہے اور اس بات کا بھی ادراک کر سکتا ہے کہ ظالم کون ہے اور آزادی کی جنگ لڑنے والے غازی کون۔