کراچی بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ترجمان نے کہاہے کہ کراچی پولیس چوبیس گھنٹے کے دوران دوسری مرتبہ یعنی ہفتہ کی رات ڈیڑھ بجے کراچی پریس کلب کے باہر جاری دھرنے پر دھاواں بول دیا اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنما فوزیہ بلوچ سمیت 80 کے قریب دیگر شرکا کو تشدد کے بعد گرفتار کرلیا۔ جنہیں وومن تھانہ آرام باغ تھانہ اور پریڈی تھانے میں منتقل کردیا ہے۔
انھوں نے کہاہے کہ اس سے قبل پہلی دفعہ دو اگست 2024 کی شام چار بجے بروز جعہ کو بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے "بلوچ راجی مچی” پر پولیس تشدد، حراستوں اور قافلوں پر تشدد کے خلاف کراچی میں ریلی نکال رہے تھے۔ ریلی کے شرکاء نے آرٹس کونسل کراچی سے کراچی پریس کلب تک مارچ کرنے کی تیاریاں کررہے تھے کہ پولیس نے ان پر دھاواں بول دیا اور ان پر لاٹھی چارج کیا ۔
تاہم گرفتاری سے بچنے والے مظاہرین کی بڑی تعداد نے آرٹس کونسل کے قریب دھرنا دیا۔ بعد میں یہ دھرنا کے شرکاء کراچی پریس کلب کے سامنے آنے میں کامیاب ہوگئے۔ جبکہ عوامی ردعمل کے بعد پہلی دفعہ گرفتار فوزیہ سمیت دیگر خواتین کو رہا کردیا گیا۔ تاہم دیگر اٹھارہ کے قریب مرد اور بزرگ مظاہرین کو پولیس نے رہا نہیں کیا۔
رہائی پانے والی خواتین نے کراچی پریس کلب کے باہر دھرنے میں ایک بار پھر شریک ہوئیں۔ خواتین کا مطالبہ تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے اٹھارہ کے قریب دیگر مرد اور بزرگ کو رہا کیا جائے۔ جس پر سندھ پولیس راضی نہیں تھی۔
اس حوالے سے ہفتہ کی رات ڈیڑھ بجے کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین پر پولس نے چوبیس گھنٹے میں دوسری مرتبہ دھاواں بول دیا۔
ترجمان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے بعد سندھ میں قائم پیپلز پارٹی کی حکومت پرامن احتجاج کرنے والی بلوچ خواتین اور سیاسی ورکروں کو نشانہ بنارہی ہے۔ جس سے ہم سمجھتے ہیں یہ عمل شہید بے نظیر بھٹو کے نظریہ کی منافی ہے۔
ترجمان نے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو سے مخاطب ہوئے کہا کہ احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے اور یہ حق آئین فراہم کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ آئین کی پاسداری خود پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں کررہی ہے عوام کو جمہوری حق سے نہ صرف محروم کر رہی ہے بلکہ سنگین تشدد سے تمام تر روایات و اقدار کو پامال کرنے میں مصروف عمل ہے۔