گوادر راجی مُچی یا اجتماعی گریہ -تحریر: دل مراد بلوچ

میرا مملکتِ اللہ داد پاکستان کو عاجزانہ مشورہ ہے کہ "راجی مُچی” جلسے کو روکنے کی کوشش نہ کریں۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت گوادر ایک بین الاقوامی شہر بننے کی راہ پر گامزن ہے اور بلوچ قوم کی تقدیر بدلنے جا رہی ہےبلکہ بدل بھی چکی ہے۔ گوادر سنگاپور، دبئی، سڈنی وغیرہ کی طرح ترقی کر رہا ہے۔ کچھ نادان اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں، انہیں کرنے دیں۔ بھلا مملکت اللہ داد کے جذبۂ شہادت سے سرشار اسلامی اور”پاک” فوج کو کون شکست دے سکتا ہے؟ اب چند لوگ اصرار کر رہے ہیں کہ وہ گوادر میں جلسہ کریں گے، سمجھانے کے باوجود نہیں سمجھ رہے، انہوں نے ضد کر رکھی ہے تو جانے دیں،کرنے دیں جلسہ، کیونکہ مجھے قوی امید ہے کہ جلسے میں شرکت کرنے والے ترقی و خوشحالی کے سفر میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے یا رکاوٹ ڈال ہی نہیں سکتے، حتیٰ کہ وہ پینے کا پانی بھی اپنے ساتھ لا رہے ہیں کیونکہ گوادر کے امیر کبیر لوگ دنیا کے مہنگا ترین پانی پی رہے ہیں جو شرکاء کے استظاعت یا صحیح الفاظ میں اوقات ہی سے باہر ہے۔

ان لوگوں کے پاس کوئی ہتھیار، بم، بارود، جیکٹ، توپ نہیں ہے۔ یہ نہتے ہیں اور گوادر میں تو افواجِ مملکتِ اللہ داد کی بدولت دنیا کا جدید ترین سیکورٹی نظام ہے۔ تین اطراف سمندر ہے، داخل ہونے کا راستہ ایک تنگ سی پٹی ہے۔ اگر انہوں نے کوئی شرارت کی تو کہاں بھاگ سکتے ہیں؟ سمندر میں نہیں کود سکتے۔ اگر کودیں تو بھی آپ کا کون سا نقصان ہوگا؟ ڈوب جانے دو، وہ جانیں ان کی بلا جانیں۔ میں تو کہہ دوں کہ یہ لوگ اپنا نقصان آپ ہی کر رہے ہیں اور مملکتِ اللہ پر کوئی حرف بھی نہیں آئے گا۔

بلوچستان کے طول و عرض سے رواں دواں قافلوں میں کون لوگ ہیں؟ یہ اپنے عہد کے غیر معمولی لوگ ہیں۔ انہیں مملکتِ اللہ داد نے اعلیٰ قسم کی تربیت دی ہے۔ دنیا کی کوئی ریاست درد، رنج، الم، اذیت سے لوگوں کو تربیت دینے کے قابل نہیں ہے۔ خوامخواہ اپنی ٹیکنالوجی، فوج اور جدید ذرائع پر ناز کرتے ہیں، حقیقت میں مملکتِ اللہ داد کے سامنے پانی بھرتے ہیں، طفلِ مکتب ہیں۔ لیکن ‘ہماری’ مملکت نے لوگوں کی ایسی تربیت کی ہے کہ اب لوگ انسان نہ رہے، شیشہ بن چکے ہیں۔

مملکتِ اللہ داد نے انہیں ‘درد’ کی بھٹی میں ایسی تپادیا ہے، یہاں تک کہ یہ مجسم درد بن چکے ہیں، آپ نہیں دیکھ رہے ہیں، ذرا سی بات پر چھلک جاتے ہیں، رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔ حسیبہ تو ایسی روئی کہ مغربی فلاسفر تک پگھل گئے، سمی ایسی روئی کہ ‘نقاب’ تک بھسم ہو گئی۔ لہٰذا پیارے پاکستان، رونے دو انہیں۔ بھلا ایٹمی پاور کا رونے دھونے سے کیا بگڑتا ہے؟ اپنا آنسو ضائع کرتے ہیں، فکر کاہے کا۔ یہ لوگ جمع ہو کر بھلا کیا کریں گے؟ زیادہ سے زیادہ اجتماعی طور پر دو چار گھنٹے رو لیں گے، اپنا جی ہلکا کریں گے۔

اگر آپ نے اس احقرالبشر کی عاجزانہ گزارش نہیں سنی اور لوگوں کو رونے کا موقع نہ دیا تو کوئی بھروسہ نہیں کہ ان کا منتظر سمندر ہی جذباتی ہو جائے۔ بلوچ سمندر بھی خدا معلوم کیوں اس قدر آگ بگولہ ہو چکا ہے، اس کا آپ نے کیا بگاڑا ہے؟ خیر، اس بحث کو جانے دو۔ اور جب سمندر نے رونا شروع کیا تو کیا معلوم سمندر کے آنسو، گوادر کی ترقی و خوشحالی کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی ترقیاتی منصوبوں کے لیے جان جوکھم میں ڈالے شہد سے میٹھی دوستی والی چینیوں اورسیالکوٹی، جہلمی گبھرو جوانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں۔

یہ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ کے تخلیق مملکت پاکستان نے ان کے بیٹے لاپتہ کیے۔ بے سر وپاباتیں ہیں ،محض پروپیگنڈہ سے متاثرہ لوگ ہیں بھلا ماں سماں ریاست اپنے "بچوں” کوکیسے غائب کرتا ہے، اگر کچھ غائب کیے جاچکے ہیں توضرور انہوں نے کچھ نہ کچھ توکیا ہوگا اوراس میں یاد رکھنے کی یات یہ ہے کہ بیٹوں یا بھائیوں یا نام نہاد "خونی” رشتوں کے لیے کوئی اتنا جذباتی ہو سکتا ہے؟ والدین اور بچوں میں ایسی کون سی رشتہ ہوتا ہے جو بیٹے والدین اور والدین بیٹوں یا بہن اپنے بھائیوں کے لیے مرنے مارنے پر تُلے ہوئے ہیں؟ بیٹے اور والدین کا رشتہ اتنا خاص تو مجھے نہیں لگتا۔

مملکت اللہ داد! ایک بات جانتے ہو؟ یہ سارا مسئلہ زبانوں نے بگاڑ کر رکھا ہے۔ اب دیکھو نا اپنے پیارے اردو میں بیٹے یا بیٹی کو "لختِ جگر”، "جگر گوشہ”، "دل کا ٹکڑا”، عربی میں "قُرَّةُ العَين” یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک، "نور العين” یعنی آنکھوں کا نور، "حَبِيبُ القَلب” یعنی دل کا محبوب، فارسی میں "نورِ چشم”، "پارهٔ دل”، "جانِ پدر یا جانِ مادر” اور انگریزی میں "Heart of My Heart”، "My Beloved Child” وغیرہ کہہ کہہ کر والدین کا دماغ ہی خراب کر دیا۔ اور والدین، بہن بھائیوں نے یقین کر لیا ہے کہ واقعی بچے یا بھائی نور العین، دل، جگر کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔

لہٰذا جب چندایک بچے مملکت اللہ کی سلامتی وحفاظت کے لیے گُم کیے جاتے ہیں تو یہ برگشتہ لوگ بگڑ جاتے ہیں، سڑکوں پر نکل نکل کر رونا دھونا شروع کرتے ہیں، ریاست اللہ داد کو ‘خاکم بدہن’ بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب تو انہوں نے اجتماعی طور پر رونے کا فیصلہ کیا ہے، زیادہ سے زیادہ چند ایک لاکھ اکھٹے ہو کر روئیں گے۔ لیکن یہ توبیس سالوں سے رو رہے ہیں، کیا بگاڑ چکے ہیں؟ آج بھی مملکت اللہ ستاون اسلامی ممالک کا پہلا اور دو سو ملکوں والی دنیا کا ساتواں ایٹمی طاقت ہے۔ بھلا ایٹمی طاقت آنسوؤں سے ڈھ سکتی ہے؟ پاگل ہیں جو ایسی غلط فہمی پالتے ہیں۔

اب ایک اور مسئلہ درپیش ہے۔ بلوچستان کے کونے کونے سے یہ دل جلے، جگر جلے نکلے ہیں۔ شیشے کی طرح نازک ہیں۔ اگر آپ نے اکھٹے نہیں ہونے دیا، اکھٹے رونے نہیں دیا، جہاں جہاں روک لیا، وہیں کرچی کرچی ہو جائیں گے۔ جا بہ جا شیشے کے ٹکڑے بکھر جائیں گے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ان شیشوں کے ٹکڑوں سے مملکت اللہ داد کے شیردل جوانوں کے پاؤں زخمی ہو جائیں گے، کیونکہ وہ انہی لوگوں کی حفاظت کے لیے اپنا پیارا لہور، سیالکوٹ، جہلم، راولپنڈی چھوڑ چھاڑ کر بلوچستان کے بے آب و گیاہ بیابانوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ لیکن یہ ناسمجھ ہیں، نادان ہیں، اپنے محافظین کی قدر نہیں جانتے۔ لیکن چنتا کی بات نہیں، وقت انہیں سکھا دے گا، آپ بس انہیں رونے دیں، آنسو بہانے دیں۔

اب تک کی معلومات کے مطابق بلوچستان میں مملکت اللہ داد کے محافظوں نے انہیں جگہ جگہ گھیر رکھا ہے۔ ایک دو جگہ انہیں سمجھانے کے لیے آتشیں اسلحہ کا استعمال بھی کرنا پڑا۔ چند ایک شاید مارے گئے ہیں، کوئی بات نہیں۔ اگر مملکت اللہ انہیں اسی روک لے، اس سے ایک اور مسئلہ پیش آ سکتا ہے۔ یہ خانماں برباد لوگ، لٹے پٹے لوگ ہیں، جہاں انہیں محافظ روکتے ہیں، وہیں ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ میرے معلومات کے مطابق انہوں نے قسم کھا رکھی ہے کہ گوادر میں اکھٹے ہو کر اجتماعی طور پر رو لیں گے۔ گوکہ یہ نامعقول لوگ ہیں لیکن ان کا یہ فیصلہ مجھے زیادہ نامعقول بھی نہیں لگتا کیونکہ جا بہ جا رونے سے ریاست اللہ داد کی بدنامی کا خدشہ ہے۔

آنسوؤں سے جگہ جگہ چھوٹے بڑے سیلاب بھی آ سکتے ہیں۔ جانے دو انہیں گوادر۔۔۔ وہاں جا کر ساحل پر رو رو کر آنسو سمندر میں بہا دیں گے۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آنسو سمندر میں مل جاتے ہیں تو آنسو ہی رہ جاتے ہیں یا سمندر ہی آنسو بن جاتا ہے۔ کوئی بات نہیں، بعد کا بعد میں دیکھتے ہیں۔ فی الحال انہیں رونے دیں۔ آخر میں نادان بلوچوں کو میرا مشورہ ہے کہ جا بہ جا رونے سے بہتر ہے کہ کوہِ مراد کی وسیع دیوار کو اپنا قومی "دیوارِ گریہ” قرار دیں اور وہاں سالانہ اجتماعی گریہ و زاری کا اجتماع کریں۔

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

مدیر

نیوز ایڈیٹر زرمبش اردو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Next Post

بلوچ قومی اجتماع (بلوچ راجی مُچی)تحریر ؛ میرک بلوچ

ہفتہ جولائی 27 , 2024
انسان کے پاس سب سے بڑی دولت اور نعمت ”آزادی“ ہے جب تک انسان آزاد رہتا ہے اپنے تمام تر دینی و دنیاوی کام با آسانی سر انجام دے سکتا ہے اور جب اس سے یہ نعمت چھین لی جاتی ہے تو وہ نہ پورے طور پر اپنے دین پر […]

توجہ فرمائیں

زرمبش اردو

زرمبش آزادی کا راستہ

زرمبش اردو ، زرمبش براڈ کاسٹنگ کی طرف سے اردو زبان میں رپورٹس اور خبری شائع کرتا ہے۔ یہ خبریں تحریر، آڈیوز اور ویڈیوز کی شکل میں شائع کی جاتی ہیں۔

آسان مشاہدہ