شال : پاکستانی فورسز ہاتھوں جبری لاپتہ ظہیر کے بازیابی کیلے نکالی جانی ریلی پر پولیس کی لاٹھی چارج ، فائرنگ کی گئی اور تشدد کرکے انھیں حراست میں لیا گیا متعدد خواتین و حضرات زخمی ہوگئے ۔
عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین کو ریڈ زون جانے سے روک دیا گیا ۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ فورسز کے ہمراہ آئی ایس آئی ،ایم آئی کے کارندے بھی شامل ہیں ، جو خواتین حضرات پر زبان کی تیر سے وار کرکے انھیں دہشت گرد غدار پاکستان دشمن کہا جارہاہے ۔
انھوں نے کہاکہ پچھلے دس دن سے ظہیر کے لواحقین سریاب روڈ پر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ، مگر حکومت کی جانب سے ان کی شنوائی نہیں ہورہی تھی جس کی وجہ سے ریڈ زون میں جاکر دھرنا دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔ جنھیں روکنے کیلے پولیس ایجنسیاں سڑکوں پر نکل آئے اور مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔
دوسری جانب بلوچ یکجہتی کمیٹی کی رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سریاب واقع کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ظہیر بلوچ کی اہل خانہ کی جانب سے اس کے بازیابی کے لئے گذشتہ 11 دن سے سریاب روڈ کوئٹہ میں دھرنا جاری ہے۔ آج ایک ریلی نکالی گئی مگر کوئٹہ پولیس کے جانب سے پر امن مظاہرین، عورتوں اور بچوں پر تشدد کیا گیا، اور پر امن مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہےکہ یہ ریاست اس بات پر مکمل ایمان رکھتی ہے کہ ہر مسئلے کا حل تشدد ہے، پہلے اپنے ہی آئین و قانون کو پاؤں تلے روند کر شہریوں کو جبری طور پر گمشدہ کرتی ہے جبکہ ان کے اہل خانہ ان غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کے خلاف پرامن طور پر احتجاج کرتے ہیں، آواز اٹھاتے ہے تو ریاست ڈائیلاگ کرنے اور مسئلے کو حل کرنے کے بجائے خواتین اور بچوں پر بدترین تشدد کرتی ہے، انہیں گرفتار کرتی ہے۔
انہوں نے کہا ہےکہ اگر یہ ریاست سمجھتی ہے کہ وہ جبر اور بربریت سے عوامی آواز کو دبا سکتی ہے تو وہ تاریخ کے انتہائی غلط مقام پر کھڑی ہے۔ میں بلوچ قوم سمیت تمام لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ ظہیر بلوچ کے اہل خانہ اور عام مظاہرین پر اس تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف بھر پور آواز اٹھائے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں۔